وطن عزیز میں لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کا قیام آزادی کے فوراً بعد ہی عمل میں آگیا تھا۔ ترکِ وطن کر کے جانیوالے ہندوئوں اور سکھوں کی متروکہ جائیدادوں اور مہاجرین کو الاٹ ہونیوالی زمینوں پر قبضہ کر کے اِس مافیا نے اپنے مکروہ دہندے کی بنیادرکھ دی تھی ۔ ہر آنیوالے دن اِس گروہ کی تعداد اور چیرہ دستیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ مافیا سرایت کرتے کرتے اِس قدر عروج حاصل کرچکا ہے کہ ملک کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت، لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کی مدد کے بغیر قائم رہنے کا تصور کر سکتی ہو بلکہ اندھی دولت کا مالک یہ لینڈ مافیا اپنی مخصوص خدمات کے باعث سیاسی جماعتوں میں زیادہ عزت و تکریم کا مالک سمجھا جاتا ہے۔کراچی میں رینجرز حکام اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے دہشت گرد سرگرمیوں کیخلاف کریک ڈائون شروع کیا تو معلوم ہوا کہ بااثر لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ بھی اِن سرگرمیوں کی پشت پناہی میں ملوث ہیں۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن نے کچی آبادیوں میں لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کیخلاف جدوجہد کی۔ اُنکی نشاندہی کی۔ بہت بڑی تعداد میں قبضے ختم کروائے۔ کئی علاقوں میں غریب لوگوں کی جائیدادیں واگزار کروائیں۔ اُنکی جدوجہد جاری تھی کہ انہیں قتل کردیا گیا۔ سابق چیف جسٹس ناصر الملک نے ازخود نوٹس لیا۔ JIT تشکیل دی گئی۔ خفیہ اداروں کی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹوں کیمطابق پروین رحمن کی لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کی سرگرمیوں کیخلاف جدوجہد سے سیاسی عسکری ونگز اورTTPکو بہت پریشانی لاحق تھی۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ رینجرز، کراچی سے لینڈ مافیا کا صفایا کرنے کیلئے پُر عزم ہے۔ آئے روز رینجرز کیجانب سے سرکاری اراضی اور نجی جائیدادوں کو واگزار کروائےجانے کی اطلاعات ملتی ہیں۔ رینجرز حکام نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے کا متعلقہ ریکارڈ حاصل کرکے لینڈ مافیا کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات ختم کروائی جارہی ہیں۔ نیشنل ہائی وے کے قرب وجوار سمیت کراچی بھر سے ہر طرح کے قبضے ختم کروائے جانیکا عمل بلاشبہ کراچی کو امن اورروشنیاں لوٹانے کی جانب ایک اہم قدم ہے، جس کیلئے رینجرز اور دیگر ادارے لائق مبارکباد ہیں تاہم اندرونِ سندھ محکمہ آبپاشی سمیت دیگر اداروں کی لاکھوں کنال اراضی بااثر لینڈ مافیا سے واگزار کروانا حکومت سندھ کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پنجاب میں بھی لینڈ مافیانہایت بااثر ہے۔یہ عناصر سیاسی سرپرستی میں بھرپور طور پر سرگرم عمل ہیں۔ لاہور میں قیمتی رہائشی اور تجارتی جائیدادوں پر قبضہ کرلینا ایک عام معمول بن چکا ہے۔ اِنکے جبرو تسلط کا زیادہ تر شکار بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی ہیں، جنہیں جعلی شناختی کارڈوں سے شروع کی گئی ختم نہ ہونیوالی مقدمہ بازی میں الجھایا جاتا ہے اور پھر مالکان کو اَونے پَونے داموں جائیدادیں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبہ بھر میںسرکاری اراضی سے لینڈ مافیا کا قبضہ ختم کرانے کے احکامات صادر کئے ہیں۔ جسکے تحت صرف ضلع راجن پور سے 8896ایکڑ محکمہ جنگلات اور 6916ایکڑ سرکاری اراضی واگزار کروائی گئی۔یہ ایک قابلِ تعریف اقدام ہے تاہم سیاسی سرپرستی میں سرگرمِ عمل قبضہ گروپوں کیخلاف بھی کریک ڈائوں کی ضروری ہے تاکہ بیرون ملک پاکستانیوں اورعام شہریوں میں احساسِ تحفظ پیدا ہوسکے لیکن یہ کام موجودہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس نہ کر پائیگی کیونکہ جنگلات، آبپاشی، مال، ریلوے، متروکہ املاک اور دیگر محکمہ جات کی کھربوں روپے مالیت کی سرکاری اور نجی اراضی پر قبضہ اُن ہی کی ملی بھگت سے ممکن ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی قبضہ گروپوں کی کارستانیاں زوروں پر ہیں۔یہاں صورتحال قدرے بہتر ہے کیونکہ اِس صوبے کی پولیس روزِ اوّل سے ہی دیگر صوبوں کی نسبت بہتر خیال کیجاتی ہے۔ یہ نسبتاً بہت کم کرپٹ ہے۔ پشاور کے SSP آپریشن نے کچھ عرصہ قبل خفیہ سروے کروایا تو پتہ چلا کہ ضلع میں130فراد سرکاری یا نجی املاک کے قبضوں میں ملوث ہیں، جن میں سے 60شہر، 39کنٹونمنٹ اور 30افراد دیہی علاقوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جنکے لئے علیحدہ ٹیمیں تشکیل دی گئیں ہیں جو متعلقہ تھانہ یا مقامی پولیس کو اطلاع دیئے بغیر چھاپے مار یں گی۔ اسطرح لینڈ مافیا و قبضہ گروپوں کے افراد کو گرفتار کرکے متاثرین کو اُنکی اراضی یا جائیداد وں کا قبضہ دلوایا جائیگا۔ کراچی کے بعد اسلام آباد میں لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ بہت زوروں پر ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق 70ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ پر غیر قانونی قابضین کا تسلط ہے۔ اِن میں سے بیشتر کا تعلق براہ راست حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔ اسلام آباد میں لینڈ مافیا کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ یہاں CDA، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ادنیٰ سے اعلیٰ سطح تک کے افسران، لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کے سامنے ہاتھ باندھے اور سرجھکائے ہر حکم کی تعمیل کیلئے مستعد کھڑے نظر آتے ہیں۔ اِنکے راستہ میں واحد رکاوٹ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری والی عدلیہ تھی، جس نے 2011ء میں20ہزار کنال سے زائد سرکاری اراضی ناجائز قابضین سے واگزار کروا ئی تھی۔ قبضوں اور ناجائز تجاوزات میں گزشتہ 10سالوں میں 70فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک سیاسی شخصیت کی سرپرستی میںبنی گالہ کے نزدیک موہڑہ نور سے گزرنے والے دریائے کورنگ سے متصل وسیع سرکاری رقبہ پر درخت کاٹ کر ایک بہت بڑے ایگرو فارم میں تبدیل کردیا گیا۔ معاشرے میں ہر شہری سمجھتا ہے کہ جج صاحبان بہت محفوظ ہیں لیکن اسلام آباد میں جج بھی محفوظ نہیںہیں۔ ایک سیاسی شخصیت نے ایک تھانہ میں پہلے اپنی مرضی کا SHOتعینات کروایا اور پھر اُسکے چند دن بعدمذکورہ شخصیت کے قریبی عزیزوںاور کارندوں نے ایک صوبے کی ہائیکورٹ کے ایک حاضر سروس جج کے ایگرو فارم پر قبضہ کرلیالہٰذا مذکورہ ہائیکورٹ کے جملہ جج صاحبان نے اپنی میٹنگ بلائی اور آئی جی اسلام آباد کو بلا کر سرزنش کی گئی جہاں آئی جی کو معذرت کرنا پڑی اور واپس آکرجج صاحب کے ایگرو فارم کا قبضہ واگزار کروایا۔ اِس وقوعہ کی FIRدرج ہوئی لیکن مذکورہ شخصیت کے اثر و رسوخ کے باعث پولیس کسی ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی بلکہ جن ملزموں نے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی تھی انکے بارے میں بھی عدالت میں بیان دیا گیا کہ وہ پولیس کو مطلوب نہیں ہیں۔ ایس ایچ او کوآئی جی نے معطل کیا جسے شدید دبائو کے پیش نظر پولیس حکام چند دن بعد ہی دوبارہ بحال کرنے پر مجبور ہوگئے۔اِس سرکاری شخصیت کے زیر اثر سرکاری ونجی املاک پر قبضوں کی داستانیں بنی گالہ، چک شہزاد، ترلائی، سہالہ،پنڈ بیگوال الغرض ہر سمت پھیلی ہوئی ہیں لیکن کسی اتھارٹی کی مجال نہیں کہ اِنکا راستہ روکنے کی جرأت کرسکے۔ اسلام آباد سے متصل ضلع کی دوسیاسی شخصیات پر CDAکے سیکٹرG-12، نسٹ یونیورسٹی سے ملحقہ زمینوں اور جائیدادوں پر قبضوں کے الزامات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ عام شہری بھی صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں سرگرم عمل معتبر لینڈ مافیا اور معزز قبضہ گروپوں کی وارداتوں کی تفصیلات اِس قدر زیادہ ہیں کہ یہ مختصر کالم اُنکا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ اِن بااثر قبضہ گروپوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز وزارتِ داخلہ کو اسلام آباد میں سرگرم عمل لینڈ مافیاکیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ غالباً اِسی حکم کے پس منظر میں چندروز قبل ،ماضی میں لینڈ مافیا کے بے تاج بادشاہ اور ایک خاتون کے مقدمہ قتل میں گرفتار ملزم کے ڈیرے پر چھاپہ مار کر بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد اور متعدد افغانی و دیگر افراد کو گرفتار کیا تھا ۔ اُمید ہے کہ جلد اِس آپریشن کا دائرہ کار بلا امتیاز دیگر عناصر تک وسیع کردیا جائیگا۔ خواہ اُنکا تعلق حکومتی جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے۔ خواہ وہ کسی جماعت کے عہدیدارہوں یا پارلیمنٹ کے رکن۔ جناب وزیراعظم! حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایسے عناصر جن پر لینڈ مافیا یا قبضہ گروپ کے الزامات ہوں اُن پر وزیر اعظم ہائوس، وزیراعظم سیکریٹریٹ یا دیگر سرکاری دفاتر میں منعقدہ سرکاری میٹنگز میں شرکت پر آپریشن کی تکمیل تک مکمل پابندی عائد کردی جائے تاکہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور بیوروکریسی ناجائز دبائو میں نہ آئے نیز یہ آپریشن نااہل انتظامیہ، بدعنوان پولیس اور سی ڈی اے کے کرپٹ افسران کے ہوتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کرتا ہوا نظر نہیں آتا لہٰذا مکمل اختیارات کیساتھ رینجرز اور خفیہ اداروں کو ٹاسک دیناہو گا۔ اِس اَمر کی پرواہ کئے بغیر آپریشن کیا جائے کہ حکومتی جماعت کے کتنے رہنما گرفتار ہوتے اور اپوزیشن کے کتنے رہنما پسِ زنداں جاتے ہیں۔ اسلام آباد کو بچانے کیلئے کسی کو تو آگے آنا ہوگا۔ جنابِ وزیر اعظم ! آپ ہی فیصلہ کُن انداز میں ایک قدم آگے بڑھایئے۔