• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں جب اپنے گناہوں کا حساب کرنے بیٹھتا ہوں، تو آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگتے ہیں اور زندگی اکارت جانے کا احساس روح کو گھائل کرتا جاتا ہے، پھر اﷲ تعالیٰ کی بیکراں رحمتوں اور شفیع المذنبین حضرت محمد ﷺ کی شفاعت کا خیال ڈھارس بندھاتا اور اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ ہمارے دینِ حق نے بھی ہمیں یہی سکھایا ہے کہ نااُمیدی حرام ہے اور زندگی میں صبحِ اُمید کی تازگی رہنی چاہئے۔ اِسی شعور اور کامل یقین کے ساتھ مسلمانوں نے انسانی تہذیب کی تشکیل اور ارتقا میں عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں اور دنیا کو سلامتی کی راہیں دکھائی ہیں، مگر اب وہ ایک عرصے سے مصائب کا شکار ہیں اور پورا عالمِ اسلام بدامنی کی بدترین مثال بنتا جا رہا ہے۔ ہمارا وطن پاکستان چار پانچ عشروں سے خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے۔ جب مذہب سے بیزار دانش وروں، ادیبوں اور سیاسی شخصیتوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قائد اعظم خود بھی سیکولر تھے اور پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانا چاہتے تھے اور مغربی تہذیب میں رنگے ہوئے اربابِ اختیار نے اسلامی شعائر کا مذاق اُڑانا شروع کیا اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کا درس دینا بند ہوا، تو اِس کے ردِعمل میں مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ افغانستان پر روسی فوجوں کی یلغار کے نتیجے میں غیر ریاستی عناصر منظم ہوئے اور عسکری اعتبار سے طاقت پکڑتے گئے۔ مسلک کی بنیاد پر مسلح تنظیمیں وجود میں آئیں اور ’باطل نظام‘ کو فنا کر دینے کے لیے خودکش حملوں کا ہتھیار ایجاد ہوا اور نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دی گئی کہ خودکش حملہ آور سیدھے جنت میں جائیں گے۔
یہ ذہن تیار کرنے والے پاکستان کے اندر بڑی تعداد میں سرگرم تھے جو سیاسی اور عسکری قیادت کی اَنتھک اور مشترکہ کوششوں سے بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں، مگر انہیں باہر سے فوجی تربیت، اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اب دہشت گرد اسکولوں، تربیتی اداروں، اسپتالوں، تفریحی مقامات اور عبادت گاہوں پر حملے کر رہے اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ دو چار خودکش بمبار درجنوں شہریوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہم نے پھول سے سینکڑوں بچوں اور بعض اساتذہ کو خون میں نہاتے دیکھا تھا اور پورا پاکستان ماتم کدہ بن گیا تھا، لاہور کے گلشن اقبال باغ میں چند خودکش حملہ آوروں نے اَن گنت بچوں اور عورتوں کے پرخچے اُڑا دیے تھے اور ہم شدتِ غم سے دھاڑیں مار مار کر رو بھی نہیں سکے تھے۔ مردان کی یونیورسٹی میں بھی ایک قیامت ٹوٹی تھی اور انسان ہلاک ہوا تھا۔ غالباً یہ مناظر دیکھ دیکھ کر آدمی پتھر کا بن جاتا ہے اور اِس کے سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں۔ دراصل ہمارے حکومتی اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اِن میں نااہل، غیر ذمہ دار اور کرپٹ لوگوں کی بہتات ہے اور دولت کی ہوس نے لوگوں کو بے حس بنا دیا ہے۔ اِس کا بدترین مظاہرہ دو ماہ کے دوران کوئٹہ میں ہوا جو میری روح کو زخمی اور اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر گیا ہے۔ 8؍اگست 2016ء کو ایک دہشت گرد نے کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر پر قاتلانہ حملہ کیا، تو اِس کے رشتے دار اِسے سول ہسپتال لے گئے جہاں سیکورٹی کے سرے سے کوئی انتظامات نہیں تھے۔ وکلا کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھی کی عیادت کو ہسپتال پہنچی، تو فقط ایک خودکش بمبار نے‘ جسے اسپتال داخل ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی تھی، اِس نے چند ثانیوں میں پچاس سے زائد وکلا موت کی نیند سلا دیے اور اِس سے تین گنا زیادہ زخمی کر دیے۔ بہت روز اِس قیامت خیز سانحے کا چرچا رہا۔ پورے ملک میں سوگ منایا گیا۔ وکلا ہفتوں ہڑتال پر رہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اِس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا اور کئی ہفتے سماعت بھی جاری رہی، مگر مجرم گرفتار ہوئے نہ شہید ہونے والوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھا گیا۔ نہ وکلا میں قیادت کے فقدان کے ازالے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے۔
دوسرا حشر ساماں واقعہ تو چار دن پہلے رونما ہوا ہے۔ پولیس ٹریننگ سینٹر سریاب روڈ پر واقع ہے جو ایک غیر محفوظ علاقہ شمار ہوتا ہے۔ اِس سنٹر میں ایک ہزار کے لگ بھگ پولیس کیڈٹس تربیت پاتے اور امنِ عامہ کے محافظ بنتے ہیں۔ اِس ٹریننگ سینٹر کی دیواریں کچی اور قدآدم سے بھی نیچی تھیں۔ ستمبر کے مہینے میں آئی جی بلوچستان پولیس نے اِس کی چار دیواری کو پختہ اور اونچا کرنے کی حکومت سے درخواست کی تھی جس کی وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے فوری منظوری دے دی تھی، مگر اِس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ صرف تین دہشت گرد اِس چاردیواری کو پھلانگ کر اندر آئے ،62کے قریب کیڈٹس کو شہید اور سو سے زائد کو زخمی کرگئے۔ اِس تین منزلہ عمارت کی حفاظت پر صرف ایک گارڈ تعینات تھا۔ 63شہیدوں کے جنازے اُٹھے، تو ہمارے وزیرِ داخلہ جناب چودھری نثار علی خاں نے کہا کہ لوگ جنازے اُٹھاتے اُٹھاتے بدحال ہو گئے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہا۔ ایک کیڈٹ نے یہ داستان بھی بیان کی ہے کہ کیڈٹس کی ایک بڑی تعداد ٹریننگ مکمل کر کے اپنے گھروں کو واپس جا چکی تھی اور ایک ہفتہ پہلے ٹریننگ سنٹر کے منتظمین نے انہیں کوئی وجہ بتائے بغیر واپس بلایا تھا۔ اِس کہانی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پولیس کے بعض عناصر دہشت گردوں سے ملے ہوئے ہیں۔ سوگوار قوم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ واقعہ کے ذمہ داروں کو بہت کڑی سزا دی جائے اور اداروں کی کارکردگی میں جو ہوشربا خرابیاں در آئی ہیں، اُن کا فوری سدِ باب کیا جائے۔ اس ہولناک واقعہ کے بعد تو کوئٹہ میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت جمع ہو ئی اور زخمیوں کی عیادت کے لیے ہسپتال بھی گئی اور اس نے بڑے بڑے فیصلے بھی کیے جن پر عملدرآمد کامعاملہ ایک بہت بڑے سوالیہ نشان میں چھپا ہوا ہے۔ اصل ضرورت حادثات کی مؤثر روک تھام کی ہے۔دہشت گردی کے اس واقع میں بھارت اور افغانستان ملوث بتائے جاتے ہیں۔ اس لئے حکومت کو یہ مسئلہ اُن ملکوںکی اعلیٰ قیادت کے ساتھ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں کی کارکردگی کاکڑاجائزہ لینااور ان میں ایک مؤثر کو آرڈیننس اور وقت سے پہلے حفاظتی اقدامات کویقینی بنانا ہو گا۔ اگر ہم اِس وقت حالتِ جنگ میں ہیں، تو ہمارے اداروں کو بھی ہمہ وقت چوکس اور فعال رہنا ہو گا۔ اب چار دن بعد اسلام آباد میں ایک معرکہ بپا ہونے والا ہے۔ اِس کے منفی اثرات کی روک تھام کے لیے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور جنازے اُٹھانے کے ممکنہ خطرے پر قابو پانا ہو گا۔
پاکستان کے لیے یہ نہایت کٹھن وقت ہے۔ بھارت اِس امر پر پیچ و تاب کھا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اِس کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور اِس کے ظلم و بربریت کے مناظر عالمی قائدین تک پہنچ رہے ہیں۔ اِسے اِس بات کی بھی حددرجہ شرمساری ہے کہ عالمی طاقتوں نے اِس کے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔ اِن عوامل نے اِس کی اَنا پر کاری ضرب لگائی ہے، اِس لیے وہ آئے دن کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ گزشتہ چار دنوں میں دو درجن سے زائد شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کی معاندانہ سرگرمیوں کے باعث پاکستانی فوج بڑی تعداد میں سرحدوں پر تعینات ہے اور داخلی سلامتی کا چیلنج ایک بڑی آزمائش کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اسلام آباد کا گھیراؤ قومی یکجہتی پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہو گا، چنانچہ بپھرے ہوئے نوجوانوں کی یلغار کو کسی بڑی حادثے میں تبدیل ہونے سے روکنے کی خاطر تمام جمہوری قوتوں کو آگے آنا اور پاکستان کو عدم استحکام سے محفوظ رکھنا ہو گا کہ عالم اسلام کی یہی آخری چٹان ہے۔ یہ روز روز کے جنازے اُٹھنا ہماری قومی حکمت عملی میں ایک بہت بڑی خرابی کی نشان دہی کر رہا ہے۔ ہمیں فکری راہنمائی اور اخلاقی تربیت کا ایک قابل اعتماد نظام قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


.
تازہ ترین