• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز ایک بہت ہی خوشگوار تجربہ فیصل آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ سے ملاقات کی صورت میں ہوا جو تعلیم و تدریس کو ایک ناگوار بوجھ اور بے جا آزمائش کی صورت میں معصوم ذہنوں پرسوار کرنے کی بجائے ایک دلچسپ کھیل اور سپورٹس کی صورت میں رواج دینے کے حق میں ہیں اور اپنی اس خواہش کو اپنی تعلیمی دانش گاہ میں آزمانے کے کامیاب تجربے سے گزر رہے ہیں اور خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر محمد علی شاہ جھنگ یونیورسٹی کی سربراہی کا اضافی چارج بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور یوں وہ کم از کم دو کروڑ کی پاکستانی آبادی سے تعلق رکھنے والی دو بڑی دانش گاہوں کے ذریعے تعلیم و تدریس کے کھیل کو نتیجہ خیز انداز میں کھیل سکیں گے ۔ ملک اور قوم کو اس کھیل کی از حد ضرورت تھی پون صدی پہلے تدریس کا یہ انداز استعمال ہو چکا ہوتا تو پاکستان ایجوکیشن پلازوں سے نجات پانے کے علاوہ سو فیصد تعلیم یافتہ آبادی کا ملک بن چکا ہوتا۔مجھے فیصل آباد یونیورسٹی میں اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے مشترکہ سنٹر سے خطاب کرنے کے لئے بلایا گیا تھا اور اس تقریب سے آدھ گھنٹہ پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کے ساتھ چائے پینے کی سعادت حاصل ہوئی جو بہت عرصے تک یاد رہنے اور یاد رکھنے والی باتوں سے معمور تھی۔ طلباء طالبات اور فکیلٹی کے ارکان سے خطاب کے دوران میں نے سب سے زیادہ زور اس ضرورت پر دیا کہ ہمیں اپنے وطن کی خواتین اور زنانہ آبادی کی عزت، احترام اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور اسے قومی تعمیر کے منصوبوں میں شامل ہونے کی سہولتیں بھی فراہم کرنی چاہئے ۔ دنیا کے جن ملکوں کی معاشرتی اور معیشتوں نے عالمی توجہ حاصل کی ان میں خواتین کےکردار اور زنانہ آبادی کی شرکت نمایاں رہی ہے کم از کم وقت میں اپنے اثاثوں کی مالیت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کا ایک حصہ اگر اس عرصے میں اپنے ملک کی لڑکیوں کو تعلیم یافتہ ہونے کی سہولتیں فراہم کرتے تو پاکستان پسماندہ ملکوں کی بجائے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو چکا ہوتا ۔بچوں کی ابتدائی تعلیم اگر خواتین ٹیچروں کے حوالے کر دی جائے تو مائوں کی گود سے نکل کر مدرسے میں آنے والے بچے مائوں جیسی ٹیچروں کے دامن میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ پائیں گے اور عملی تجربہ بتاتا ہے کہ زنانہ اساتذہ کے سکولوں سے بھاگنے والے بچوں کی تعداد سب سے کم ہوتی ہے ۔ابتدائی طبی امداد کے اداروں میں بھی خواتین کی کارکردگی زیادہ معیاری ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ شعبہ بھی تہذیب، شائستگی، نرمی اور توجہ کا طالب ہوتا ہے خواتین اور زنانہ آبادی کے بارے میں میرے خیالات اور جذبات کی وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ نے بھی بھرپور تائید اور خوشی کا اظہار کیا کہ میری باتوں سے متاثر ہو کر تقریب میں شریک لڑکوں نے طالبات کو ہال میں داخل ہوتے دیکھ کر ہی اپنی نشستیں طالبات کے لئے خالی کر دیں۔فیصل آباد ڈویژن کے کمشنر جناب مومن آغا نے ڈویژنل پبلک سکول فیصل آباد میں ’’مادری بولی ‘‘ کے مذاکرے میں امجد اسلام امجد ، ڈاکٹر صغرا صدف کے علاوہ مجھے بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ شام کی یہ تقریب بھی بہت دلچسپ رہی امجد اسلام امجد نے واضح کیا کہ پنجابی ہماری مادری زبان ہے مگر مادری زبان اور اردو زبان میں کوئی جھگڑا، دشمنی یا تضاد نہیں ہے مادری زبان کا سب سے بڑا حصہ ہماری قومی زبان اردو میں موجود ہے مگر اردو کو اپنی زبان کے ساتھ اپنی تہذیب بھی پنجاب پر سوار کرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ ڈاکٹر صغرا صدف نے بھی پنجابی زبان کو قومی زبان کی مخالفت کے الزام سے بری قرار دیا اور بتایا کہ صوفیوںکے استعمال میں آنے والی مادری زبان ہماری مائوں جیسا خلوص اور پیار رکھتی ہے اس خلوص اور پیار کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے میری یہ گزارش تھی کہ کوئی بھی زبان حیوان ناطق یعنی انسان کے ماضی الضمیر کی ترجمانی کرتی ہے ۔ زبان سے زیادہ اہمیت اس ’’بیان‘‘ کی ہے جس کی ادائیگی کے لئے زبان استعمال کی جا رہی ہے یہ الگ بات کہ ’’ماں بولی ‘‘ کے ذریعے کہی جانے والی بات زیادہ متاثر کرنے والی اور آسانی سے سمجھ آ جانے والی ہوتی ہے اور ہمیں اچھی لگتی ہے تعلیمی اداروں میں اس نوعیت کی تقریبات کا تسلسل جو تعطل کا شکار ہے جاری رہنا چاہئے ۔


.
تازہ ترین