• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ میں پانچ درجن پولیس کیڈٹس کی دہشت گرد حملے میں ہلاکت بمشکل ایک دن خبروں میں رہی۔ کیاعام شہریوں کے اس طرح قتل ِ عام پر ایک قوم کی اتنی بے حسی ممکن ہے ؟ایک ریاست کس طرح اُس مشکوک پالیسی پر اڑی رہ سکتی ہے جو سپاہیوں اور پولیس کے جوانوں کی جانوں کا خراج لیتی رہے ؟ابھی وکلا کے قتل ِعام پر بہنے والے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ بلوچستان اپنے نوجوان بیٹوں کی ہلاکت پر نوحہ کناں ہے ۔ اس دوران باقی قوم پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری سدابہار T-20 دیکھنے کے لئے دم سادھے بیٹھی ہے ۔
ایک شخص کی جان کی قدر اُس کے عزیز و اقارب ہی جان سکتے ہیں، اجنبیوں کو اس سے کیا سروکار؟نجی زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہے،لیکن کیا ایک ریاست کو ایسا رویہ زیب دیتا ہے کہ کچھ جانیں دوسری جانوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوں؟کیاایک ریاست پر بلا امتیاز اپنے تمام شہریوں کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری عائدنہیں ہوتی؟ہماری ریاست کی دہری پالیسیوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر دہشت گرد ایک فوجی اسکول پر حملہ نہ کرتے شاید دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق ِرائے کی بھی نوبت نہ آتی۔ کیا نسبتاً کم اہم مقامات، جیسا کہ کوئٹہ، پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد روایتی تعزیتی پیغامات اوربے معانی بیانات سن کر ناقدین کی رائے وزنی دکھائی نہیں دیتی؟ہمارے دفاعی ادارےپہلے بھی کم منظم اور موثر نہ تھے، لیکن پھر ماضی میںاتنا وسیع علاقہ ریاست کی عملداری سے نکل کر انتہا پسندوں کے پاس کس طرح چلا گیا؟ ٹی ٹی پی نے فاٹا پر راتوں رات قبضہ نہیں کیا تھا، سوات میں فضل اﷲ کی ’’اسلامی امارت‘‘ کئی سالوں سے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ شہریوں کو ٹی ٹی پی کے آدمیوں اور فوج کی چیک پوسٹوں سے گزر کر اُن علاقوں میں داخل ہونا پڑتاتھا، اور وہ دونوں چیک پوسٹیں ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھیں۔ماضی میں اس سے یہ تاثر ابھرتا تھا کہ فضل اﷲ کو ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے؟عقل مائوف تھی کہ کیا ریاست کے دفاعی ادارے اور ایک نجی فوج بیک وقت اپنی موجودگی رکھ سکتے ہیں؟
فوج کم از کم 2004 ء سے مغربی سرحد پر لڑرہی تھی۔ اس نے انتہا پسندوں کے ساتھ متعدد امن معاہدے کیے، اور پھر 2007 ء میںآپریشن کرتے ہوئے علاقہ واپس حاصل کیا۔ فوج کے ان گنت جوانوں اورافسروں( بشمول سینئر افسروں) نے اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ سب اپنی جگہ پر، لیکن اس دوران کراچی سے لے کر خیبر تک ملک میں دہشت گردی کا نیٹ ورک وسیع اور فعال ہوتا گیا۔ شہری مقامات سے لے کر حساس ترین مقامات، جیسا کہ جی ایچ کیو، فضائیہ اور نیوی کی تنصیبات اور قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کی پوسٹ دہشت گردوں کے نشانہ پر تھیں۔ ٹی ٹی پی کے بے رحم قاتلوں نے فوجی جوانوں کے سر بھی قلم کیے ۔ اس کے باوجود جون 2014 ء سے پہلے آپریشن ضرب ِ عضب شروع نہ ہوسکا۔ اس کے لئے پانی سر سے گزرنے کا انتظار کیوں کیا گیا؟ کیا تاخیر کی وجہ ہمارا تزویراتی گہرائی تلاش کرنے کا نشہ تھا؟یاکیا فوج کو ملک کے طول و عرض میں پھیلانے سے گریز کی پالیسی کارفرما تھی؟کیا اجتماعی نقصان کا اندیشہ تھا؟قیاس اغلب ہے کہ اس کی وجہ غیر فعالیت،جو ناقص پالیسیوں کی حیات ِ جاوداں کا باعث بنتی ہے، احمقانہ اعتماد، کہ انتہا پسندوں کو ریاست جب چاہے کنٹرول کرسکتی ہے ، اور اخلاقی شفافیت کا فقدان، کہ انتہا پسندی کی فیکٹریاں سماجی ڈھانچے کے لئے تباہ کن ہیں، کا ادغام تھا۔
فروری 2014 ء میں ایف سی کے 23 جوانوںکی ہلاکت نے فوج ، اور اے پی ایس پر حملے نے باقی معاشرے کی غلط فہمی دور کردی۔ وہ جو اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے کے لئے دہشت گردوں کومعاہدے کرکے رام کرنے کی وکالت کرتے ہوئے یہ بیانیہ آگے بڑھا رہے تھے کہ’’ یہ ہماری جنگ نہیں ہے، یا دہشت گرد پورے ملک کو آگ لگادیں گے، یایہ ہمارے ہی بھٹکے ہوئے لوگ ہیں‘‘ ، ممکن ہے کہ وہ اب بھی رکاوٹ ڈالتے لیکن اے پی ایس کے بعد عوامی اشتعال اتنا شدید تھا کہ دہشت گردوں کے معذرت خواہان راتوں رات غائب ہوگئے ۔ اس کے بعد ہم نے نیشنل ایکشن پلان وضع ہوتے دیکھا۔ کئی عشروں کے بعد ایسا لگا جیسے ریاست اور معاشرے نے مل کر اپنی بقاکے خطرے کو بھانپتے ہوئے اس کا سامنا کرنے کے لئے کمر کس لی ہے ۔
ہمیں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں دوامور کو یقینی بنانا چاہئے تھا۔ پہلا یہ کہ اس دوران مشرقی سرحد خاموش رہے تاکہ قوم حقیقی خطرے کی طرف یکسو ہوسکے۔ دوسرا یہ کہ ہر قسم کے انتہا پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہو۔درحقیقت 2015 ء میں ہم نے اچھی جنگ کی، لیکن امسال توجہ کا ارتکاز جاتا رہا۔ ضرب ِ عضب سے پہلے تحریک طالبان پاکستان کے میڈیا میں حامی کہا کرتے تھے کہ یہ دہشت گردی ’’ہمارے ‘‘لوگوں کا کام نہیں، اس کے پیچھے غیر ملکی ایجنٹوں کا ہاتھ ہے ۔ 2015 ء میںالبتہ ایسے دلائل عنقارہے ، ریاست کابیانیہ تبدیل ہوچکا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ مغربی سرحد پر د ہشت گرد کون تھے اور ان پر سرمایہ کاری کون کررہا تھا ، اُن کا اور اُن کی پناہ گاہوںکا خاتمہ اولین ترجیح قرار پایا۔ جب پوچھا جاتا کہ انتہا پسند ی پھیلانے والے بعض مدرسوں ، اور فرقہ ورانہ قتل و غارت میں ملوث انتہا پسندوں اور افغانستان کے علاوہ دیگر سمت فعالیت رکھنے والی جہاد ی تنظیموں کے خلاف کیوں کچھ نہیں کیا جارہا تو ہمیں نرم لہجے میں بتایا جاتا کہ وقت آنے پر سب کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جب ریاست نے لشکر ِ جھنگوی کے خلاف کارروائی شروع کی تو امید بندھی کہ شاید آپریشن میں ترجیحاتی درجہ بندی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا، اوریہ کہ تمام انتہا پسند تنظیموں کے خلاف بتدریج ایکشن لیا جائے گا۔ تاہم ایسا نہ ہوا، اور نہ ہی انتہا پسندی پھیلانے والے بعض مراکز کے خلاف کارروائی ہوتی دکھائی دی، حالانکہ انہی مراکزسے جہادی تنظیموں کو نئی بھرتی فراہم ہوتی ہے ۔ اس کے بعد جنوری 2016 ء میں پٹھان کوٹ حملہ ہوا جس کی وجہ سے توجہ کا ارتکاز ٹوٹ کر مشرقی سرحد کی طرف ہوگیا۔ بھارت کے جارحانہ انداز کو دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ریاستی بیانیے نے دہشت گردی کو بیرونی دشمن کی کارستانی بتانا شروع کردیا۔ اُڑی حملہ باقی ماندہ نیشنل ایکشن پلان کی موت کا بلاوا ثابت ہوا۔
جب دہشت گردی کو داخلی مسئلہ سمجھا جائے تو ریاست اس کی جڑوں کو تلاش کرنے کی کوشش میں انتہا پسندی کے نیٹ ورک تک پہنچتی ہے۔ ہونے والے جانی نقصان کی صورت میں عوامی اشتعال بڑھتا ہے تو محاسبہ کیا جاتا ہے۔ اصلاحات لانے اور دہشت گردوں کے خلاف ایکشن کی بات ہوتی ہے۔ اس دوران ناکامی کے ذمہ دار اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے بھی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب دہشت گردی کا الزام بیرونی ہاتھ پر دھر دیا جائے تو یہ تمام عمل ساقط ہو کر الٹ جاتا ہے ، اور اشتعال کا رخ اُن کی طرف مڑ جاتا ہے جو ’’سیکورٹی کی ناکامی ‘‘ کی بات کرتے ہیں، انہیں غدار قرار دیا جاتاہے ۔ اس طرح دہشت گردی کی اصل وجہ چھپ جاتی ہے اور دہشت گردمزید تواناہوکر وار کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اس وقت جب انڈیا کو ایک مرتبہ پھر ہم روایتی دشمن اور پاکستان کو درپیش تمام مسائل کی وجہ مان رہے ہیں، ٹی ٹی پی کا بیان آتا ہے کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں وہ بھارت کے خلاف لڑیں گے تو ژولیدہ فکری کی شکاریہ قوم اس زہریلے مفروضے میں جان ڈال دیتی ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ۔ الزام تراشی میں الجھے اور جہادی فیکٹریا ں لگانے کی ذمہ داری کا تعین کیے بغیر اس بات پر غور کریں کہ کیا آج پاکستان میں اس بات پر اتفاق ِرائے موجود ہے کہ اُن انتہا پسند وں کا خاتمہ بھی ضروری ہے جو بیرونی ایجنڈے رکھتے ہیں اور وہ فی الحال ریاست ِ پاکستان کے خلاف عزائم نہیں رکھتے؟
کنفیوژن کی اس فضا میں مہم جوئی کی سیاست دھماکہ خیز انداز میں واپس آچکی ۔ کے پی حکومت نے ریاستی فنڈز سے ایک خطیر رقم ایک مدرسے کو دی ، کوئی نہ بولا ۔ دفاع ِ پاکستان کونسل بھی یکا یک انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہے ۔ اس دوران لال مسجد کے مولانا عزیز بھی خبروں میں ہیں۔ انہوں نے اے پی ایس میں ملوث دہشت گردوں کی مذمت سے انکار کیا تھا ۔ خدشہ ہے کہ انکاطاقتور بریگیڈ بھی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوسکتا ہے ۔ اس دوران وزیر ِ داخلہ دفاع پاکستان کونسل کے ارکان سے ملاقات کرنا نہیں بھولے تاکہ ان کی دلجوئی کی جاسکے ۔ اس وقت جب کہ 2018 ء کے انتخابات قریب ہیں، پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی کسی طور انتہائی دائیں بازو کی ناراضی مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتیں۔
ضرب ِ عضب اور اے پی ایس حملے نے ہمارے سامنے امکانات کی ایک کھڑکی کھولی تھی، ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن کارروائی کرسکتے تھے ، لیکن اب یہ کھڑکی بند ہورہی ہے اب ہمیں مزید جنازوںکے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم ایک قدم آگے اٹھاتے ہوئے دوقدم پیچھے آگئے ہیں۔ ہم واپس اسی زون میں آگئے ہیں جہاں یہ انتہا پسنداثاثے ہیں اور ان کے کزنوں کے ہاتھوں مارے جانے والے شہری اجتماعی نقصان ہیں۔


.
تازہ ترین