جس طرح پاکستان کا قیام ایک حیرت انگیز واقعہ تھا کہ بغیر خون بہائے دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک وجود میں آگیا۔ تقسیم ِ ہند کے دوران جو قتل و غارت گری ہوئی وہ بعد کی بات تھی ورنہ پاکستان کا قیام 1940ءمیں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد محض سات سالوں کے مختصر عرصے میں پُر امن آئینی جدوجہد کے ذریعے ممکن ہوگیا ۔ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میںنہیں ملتی۔ اسی طرح محض 24سالوں کے بعد پاکستان کا دو لخت ہوجانا بھی ایک ایسا سانحہ ہے جس کی مثال تاریخ ِ عالم میں نہیں ملتی کیونکہ قوموں کی زندگی صدیوں پر محیط ہوتی ہے اور 24سال سے کہیں زیادہ عرصہ تو افراد کے باہمی تعلقات بھی برقرار رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں سانحہ ء مشرقی پاکستان کے بعد بھی ملکی وحدت اندرونی امن و امان سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے معاملے میں پاکستان کی صورتِ حال میں وہی ’’بے یقینی ‘‘ پائی جاتی ہے جو ابتداء میں تھی۔ جبکہ اس سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش بھی گزشتہ 44برسوں میں سیاسی ، معاشی اور انتظامی لحاظ سے پاکستان سے بہتر حالت میں آگیا ہے۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جو اس ’’کھوج‘‘ کی متلاشی ہے کہ آخر ہمارے زعماء سے کون سے ایسی غلطیاں ہوئی ہیں جن کی پاداش میں ہمارے حالات سدھرنے میں نہیں آتے اور ہم مسلسل تنے ہوئے رسّے پر چل رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی قومی زندگی کا بے لاگ سائنسی اور سیاسی تجزیہ کریں تو یہ تکلیف دہ صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ اگر ہماری قومی زندگی کے ابتدائی پچاس سال نظریاتی بھول بھلیوں، خوفناک مہم جوئیوں اور تباہ کن جنگوں کی نذر نہ ہوتے تو یقینا ًآج بھی 1947ءکا پاکستان موجود ہوتا بلکہ اتنا مستحکم اور خوشحال ہوتا کہ جس کا ہم آج تصّوربھی نہیں کر سکتے ۔ بھارت کی نسبت پاکستان اپنے محّل وقوع ، آبادی اور کم نظریاتی تضادات کیوجہ سے قدرتی طور پر تیز ترین ترقی کا حقدار تھا کیونکہ بھارت کے مقابلے میں اسکی آبادی ، صوبائی اور مذہبی تضادات نہ ہونے کے برابر تھے۔ بھارت جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے تقریباََ 7گنا بڑا ملک ہے جہاں لسانی، ثقافتی اور مذہبی تضادات کی بھر مار ہے اگر وہ ملک ابھی تک اپنی وحدت برقرار رکھے ہوئے ہے تو کیا وجہ ہے کہ حکمرانی کے لحاظ سے اس سے کہیں بہتر پاکستان جس میں 97فیصد مسلمان بستے تھے ہمیشہ انتشار اور بدامنی کا شکار رہا ہے اور اپنی وحدت بھی برقرار نہیں رکھ سکا۔ آج پاکستان اُن ممالک میں شمار ہوتا ہے جو حکمرانی کے لحاظ سے مشکل ترین ممالک ہیں۔ ہم 68برس گزر نے کے باوجود ابھی تک ایک قوم نہیںبن سکے اور نہ ہی اس کے دور دور تک آثار نظر آرہے ہیں۔ اگر ہمارے ابتدائی پچاس سالوں میں 3بڑی سیاسی غلطیاں نہ کی جاتیں تو شاید آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نظریاتی ابہام ہے۔ جس کے تحت ہم نے سیاست و ریاست میں مذہبی پیوند کاری کر کے ایک پنڈورا بکس کھول لیا ہے اور اس کے نظریاتی ریاست جیسے خوشنما نام دے رکھّے ہیں۔ جو آج ناقابلِ علاج فرقہ وارانہ نفرت اور قتل و غارت گری کا بھوت بن چکا ہے۔ طالبان اور دیگر انتہا پسند فرقہ وارانہ گروپ اس نظریاتی ابہام کا فطری نتیجہ ہیں جس نے قائداعظم کی وفات کے 6ماہ بعد منظور ہونے والی قرارداد ِ مقاصد سے جنم لیا۔ جس میں پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے سیاسی زعماء نے اس وقت بھی مستقبل میں ہونیوالے اسکے خوفناک اثرات کیوجہ سے اسکی مخالفت کی لیکن انہیں غدّار قرار دے دیا گیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان نہ تو جمہوری ریاست بن سکا اورنہ ہی مذہبی البتّہ وہ فرقہ وارانہ ہجوم بن کر رہ گیا جہاں عوام کے روزمرہ کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے اور قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مشرقی پاکستان کے نمائندوں نے سب سے زیادہ قرارداد مقاصد کی مخالفت کی اور بالآخر انہیں علیحدگی پر مجبور کردیاگیا۔ پہلے پچاس سال کی دوسری بڑی غلطی سویلین حکومت کو ختم کرکے آمریت کا قیام تھا۔ جو کسی بھی معاشرے کے قدرتی ارتقاء کو روکنے کا باعث ہوتی ہے۔ پاکستان کی کمزور ترین جمہوری حکومتوں کے ابتدائی دور میں بھی پاکستان کی حدود میں اضافہ ہوا۔ اور فیروز خان نون کے دور میں گوادر پاکستان میں شامل ہوگیا۔ لیکن آمریت کے بعد ملک کے دونوں بازوئوں میں دوریاں بڑھتی گئیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کی آبادی کا اکثریتی علاقہ اس سے الگ ہوگیا اور اسی دور میں پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکی مفادات کی جنگ کا ہراول دستہ بن گیا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ تو تمام دنیا کا بلا شرکت غیرے مالک بن بیٹھا لیکن پاکستان کے حصّے میںکیا آیا؟ ہیروئن ، کلاشنکوف کلچر، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، بد امنی ، بد انتظامی اور غربت و افلاس لیکن اس کے باوجود آمر حکومتوں کا تسلسل جاری رہا۔ مارشل لاء سے بحالی ء جمہوریت کی اعصاب شکن جنگ نے ہر طرح کی ترقی اور سکون کو غارت کردیا۔ پاکستان میں نہ تو مارشل لاء کو استحکام ملا اور نہ ہی جمہوریت کو۔ اس دوران دنیا بھر کے خود ساختہ نظام آزمائے گئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات اگر صبر و تحمّل سے جمہوریت کو چلنے دیا جاتا تو یقینا نتائج آج سے بہت بہتر ہوتے ۔ پہلے پچاس سالوں کے دوران یہ دوسری تاریخی غلطی تھی۔ تیسری غلطی جس نے رہی سہی کسر پور ی کردی وہ پہلے پچاس سالوں میں ہونے والی تین جنگیں تھیں۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف اپنی جگہ بالکل درست ہے لیکن ایک نوزائیدہ ملک کے لئے جنگ سے بچنا سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا چائنا کے مغربی ممالک کے ساتھ کبھی بھی اچھے تعلقات رہے ہیں لیکن انکی سیاسی قیادت نے جنگ سے بچتے ہوئے خود کو ایک ’’ اقتصادی جن‘‘ میں تبدیل کرلیا ہے۔ اور آج امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک چینی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ فیصلے صرف سیاسی حکمراں ہی کرسکتے ہیں طالع آزمانہیں۔ چنانچہ پاکستان کے ابتدائی گیارہ سالوں میں کمزور ترین پوزیشن کے باوجود سیاستدانوں نے بھارت کے ساتھ جنگ کو روکے رکھّا ۔ لیکن ہر آمر حکومت کے دوران ہمیں بھارت سے جنگ کرنا پڑی ۔ اس سے کشمیر تو نہیں ملا البتّہ پاکستان دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا۔ اور بقیہ پاکستان میں عوام کے مسائل اور بڑھ گئے۔ لیکن کیا ہم آئندہ پچاس سال میں بھی ایسی غلطیوں سے بچ سکتے ہیں؟