• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کینیڈا کے اعزازی قونصل جنرل اور میرے دوست بہرام ڈی آواری اور اُن کی اہلیہ گوشپی آواری جو پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے گزشتہ دنوں اپنے ہوٹل میں پارسی کمیونٹی کی ایک تقریب میں وزیراعظم میاں نواز شریف کو مدعو کیا جس میں کراچی میں اعزازی قونصل جنرل کے صدر کی حیثیت سے میرے علاوہ کراچی میں متعین مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور شہر کی ممتاز شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ وزیراعظم نواز شریف، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سربراہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ مقررہ وقت پر تقریب میں پہنچے جس کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز قومی ترانے اور ملی نغموں سے کیا گیا جسے پارسی کمیونٹی کے طلباء و طالبات نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پارسی کمیونٹی کی ملک کیلئے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پارسی کمیونٹی پاکستان کا فخر ہے جن کا ہر پاکستانی عزت و احترام کرتا ہے۔ انہوں نے تقریب میں شریک بزنس کمیونٹی کو یقین دلایا کہ سانحہ بلدیہ میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد بے نقاب کیا جائے گا اور حکومت کراچی آپریشن کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ تقریب کے میزبان بہرام ڈی آواری نے اپنی تقریر میں پاکستان میں پارسی کمیونٹی کے کردار کے بارے میں بتایا کہ پارسی کمیونٹی نے پاکستان کا سب سے اہم NED (نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا) انجینئرنگ کالج 1922ء میں تعمیر کیا جسے مارچ 1977ء میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اسی طرح کراچی کے مشہور اسکول ماما پارسی بی وی ایس کا افتتاح 24 ستمبر 1870ء میں سندھ کے کمشنر سر میری ویدر نے کیا جن کے نام پر کراچی کی پہچان میری ویدر ٹاور ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پارسی جیم خانہ 1893ء اور لیڈی ڈیفرن اسپتال 1898 میں قائم کیا گیا جہاں 1988ء میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو پیدا ہوئے تھے جبکہ گارڈن میں واقع کراچی کا معروف اسپتال انکل سریا بھی پارسی کمیونٹی نے قائم کیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں پارسی کمیونٹی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔
قارئین! پارسی، فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی فارس یعنی ایران سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو ایرانی زوروسترینز (Zoroastrains) کی نسل سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارسی کمیونٹی کے لوگ اپنی دکانوں کے نام میں ایرانی یعنی ایرانی بیکری اور ایرانی چائے وغیرہ ضرور شامل کرتے ہیں۔ پاکستان میں پارسیوں کے کچھ کھانے بہت مشہور ہیں جن میں پارسی دال چاول بھی شامل ہے جو انتہائی لذیذ ہوتےہیں۔ میری اپنے دوست بہرام آواری اور ان کی اہلیہ سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے، وہ میری فرمائش پر پارسی دال چاول سے مہمان نوازی کرتے ہیں۔ پارسی کمیونٹی کے لوگ امن اور انصاف پسند ہوتے ہیں جن میں مشہور کالم نگار و سماجی کارکن اردشیر کائوس جی بھی شامل ہیں جو کرپشن اور لینڈ مافیا کے خلاف قانونی کارروائی اور اخبارات میں بے باک کالم لکھنےکےلئے مشہور تھے۔ اسی طرح جسٹس دراب پٹیل، پارسی کمیونٹی کی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر اختلاف کیا تھا جبکہ 1981ء میں صدر جنرل ضیاء الحق سے پی سی او پر حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے کامیاب ترین سفیر جمشید مارکر کا تعلق بھی پارسی کمیونٹی سے تھا جبکہ معروف مشروب کمپنی کے مالک منوچر باندرہ پارسی کمیونٹی کی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں پاکستان کا سینیٹر اور رکن پارلیمنٹ بننے کا اعزاز حاصل ہے۔
قیام پاکستان کے بعد پارسی کمیونٹی کراچی کی سب سے بااثر اور دولت مند کمیونٹی تھی جن میں سے زیادہ تر لوگ بھارت کے شہر ممبئی منتقل ہوگئے جس کی وجہ سے پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی آبادی اور شرح پیدائش مسلسل کم ہورہی ہے۔ مذہب اسلام اور میڈیکل سائنس لوگوں کو برادری سے باہر شادی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ کراس بریڈنگ سے نئی نسل مضبوط اور توانا پیدا ہوتی ہے مگر پارسی کمیونٹی کے لوگ برادری سے باہر شادی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کی نسل جسمانی طور پر مسلسل کمزور پیدا ہورہی ہے تاہم پارسی کمیونٹی کی رتنا بائی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی زوجیت میں آئیں۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں اس وقت پارسی کمیونٹی کی موجودہ آبادی 1600 نفوس پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر لوگ 60سال سے زائد عمر کے ہیں جبکہ بھارت میں 69000، ایران میں 25000، امریکہ میں 11000، افغانستان میں 10,000، کینیڈا میں 5000، برطانیہ میں 4100، سنگاپور میں 4500، آسٹریلیا میں 2700، خلیجی ممالک میں 2200، نیوزی لینڈ میں 2000 اور آذربائیجان میں 2000 ہے۔ اس طرح دنیا میں پارسی کمیونٹی کی مجموعی آبادی 1,34400 نفوس پر مشتمل ہے۔ تحقیقی حوالے بتاتے ہیں کہ پارسی مذہب کو اختیار نہیں کیا جاسکتا اور پارسی صرف پیدائشی ہوسکتے ہیں۔ ان کے مذہب کی تبلیغ بھی نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کی آبادی گھٹ رہی ہے۔ نئی نسل زیادہ تر انگریزی بولتی ہے جبکہ ان کی آبائی زبان گجراتی ہے۔ کراچی میں پارسی مذہب کی دو عبادت گاہیں ہیں، ایک صدر میں اور دوسری پاکستان چوک پر۔ زیادہ تر لوگ پارسی مذہب کی عبادت اور تدفین کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ پارسی کمیونٹی کی آخری رسومات کے موقع پر کتے کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ پارسی کمیونٹی اپنے مردوں کو قبر میں دفنانے کے بجائے انہیں پارسی کالونی میں مخصوص مقام ’’ٹاور آف ڈیتھ‘‘ میں رکھ دیتے ہیں جہاں مردہ وہاں موجود گِدھوں (Vultures)کی خوراک بن جاتا ہے لیکن کچھ مقامات پر پارسی کمیونٹی اپنے مردوں کی تدفین کو ترجیح دیتے ہیں اور آج کل پارسی کمیونٹی میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا مردوں کی تدفین پر پابندی کو ختم کردیا جائے۔
کالم لکھتے وقت مجھے قائداعظم محمد علی جناح کی 11؍اگست 1947ء کی تقریر یاد آگئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’میرے نزدیک اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں پارسی ہوں، سکھ، ہندو، عیسائی یا مسلم ہوں۔ آئین پاکستان اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور برابر کے حقوق فراہم کرتا ہے، مذہب سے بالاتر ہوکر تمام پاکستانی اپنی عبادتوں کیلئے آزاد، برابر کے شہری اور منفرد و خوبصورت پاکستانی ہیں۔‘‘ موجودہ حالات میں پاکستان کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ ہم لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر سبز پرچم تلے صرف ایک قوم بنیں۔
تازہ ترین