گزشتہ کئی ماہ سے بڑے تواتر کیساتھ موبائل فون پر وفاقی حکومت کے ایک ادارے ’’نیشنل بُک فائونڈیشن‘‘ کی جانب سے اُردو زبان میں ایس ایم ایس موصول ہورہے تھے۔ جن میں ہر مرتبہ اَدب، شاعری، مزاح،مذہب، تاریخ، فلسفہ،سیاحت ، سفرنامہ اور بچوں کے ادب کے موضوعات پر کسی نہ کسی نئی شائع ہونیوالی کتاب کی اطلاع ہوتی تھی ۔ کتاب کا عنوان بلاشبہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے لیکن ایک عام قاری کی زیادہ دلچسپی اِس میں بھی ہوتی ہے کہ کتاب اچھی ہو اور ملے بھی کم قیمت پر۔ موبائل پر موصول ہونیوالے ہر برقی پیغام میں یہی پہلو زیادہ کشش کا باعث ہوتا تھا کہ منفرد موضوع پر شائع ہونیوالی ہر کتاب کی قیمت اُسکے کُل صفحات سے بھی بہت کم ہوتی تھی۔ آجکل نجی پبلشرز کی جانب سے شائع کی جانے والی کُتب کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ پاکستانی قوم کی مطالعہ کُتب سے دوری کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ کتابوں کا،قاری کی قوتِ خرید سے باہر ہوجانا بھی ہے۔
ایک عام شخص جو پہلے ہی کمر توڑ مہنگائی سے بدحال ہے وہ اپنے ذہن میں مطالعہ کیلئے کُتب خریدنے کے گُمان کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ بہرحال یہ امر باعث حیرت تھا کہ ایک سرکاری ادارہ قارئین کو تلاش کرتا پھر رہا ہے۔جو اہل وطن میں کُتب کے مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ قوم کے بچے، جوان اور بوڑھے جو کتب بینی کی عادت ترک کر بیٹھے ہیں انہیں دوبارہ ادب، تاریخ، مذہب، سائنس اور فلسفے کی کتب کی ورق گردانی کیلئے قائل اور آمادہ کررہا ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ کوئی ایک ادارہ تو ایسا ہے جو ایک اعلی و ارفع نصب العین کے حصول کیلئے ملک بھر میں تحریکی جذبےکیساتھ سرگرم عمل ہے وگرنہ محکمہ ہائے پولیس، انتظامیہ، کچہری، بجلی، گیس، اسپتال، تعلیم اور ترقیاتی ادارے مردم بیزاری ، لوٹ کھسوٹ اور کرپشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ آپ کسی ایک وزارت اورسرکاری ادارے میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو بدانتظامی اور بدعنوانی کی الف لیلوی داستانیں ملیں گی۔
خدا کرے کہ اِس اَرضِ پاک پر وہ آفتاب بھی طلوع ہو، وہ دن بھی آئے ، جب تمام سرکاری محکموں کے ادنیٰ سے اعلیٰ سطح کے بابو عوامی مسائل حل کرنے کیلئے لوگوں کو دعوت دیں، دفتر آمد پر اُنہیں خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہیں، اُنکے مسائل حل کرکے اُنہیں رخصت کریں بلکہ خود مسائل زدہ علاقوں اور ستم زدہ لوگوں تک پہنچ کر اُنکی دہلیز پر اُنکے مسائل کا حل اور پریشانیوں کا مداوا کریں۔خیر، کتاب دوستی کی اِس تحریک سے متاثر ہوکر ایک دن فیصلہ کیا کہ بُک فائونڈیشن کے صدر دفتر جا کرادب، تاریخ، فلسفہ، مزاح اور سفرناموں پر مبنی ڈھیر ساری کتابیں خریدکر اپنی گھریلو لائبریری کو وسعت دی جائے۔ فون کرنے پر پتہ چلا کہ نامور ادیب، شاعر اور مزاح نگار پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید ،نیشنل بُک فائونڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ڈاکٹر صاحب سے میری شناسائی اور تعلق کی عمر ستائیس سال سے زیادہ ہے ۔ اِن تقریباً تین دہائیوںکی قربت کے پیش نظر یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ وہ ایک بے چین روح اور متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ قبل ازیں مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیاتِ پاکستان اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں رہے تو اِن اداروں میں اُنہوں نے نئی جہتوں کو متعارف کرایا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ ’’پاکستانی زبانیں و ادب‘‘ کے سربراہ تھے ۔ میری کتاب ’’اُردو کی خالق: گوجری زبان‘‘ اُنکی نظر سے گزری تو مجھے ’’اُردو اور گوجری زبان کے لسانی روابط‘‘ سے ملتے جلتے موضوعات پر ایم فل کرنیوالے طلبہ کا نگراں اور کمیٹی برائے منظوری مقالہ جات کا رُکن نامزد کردیا۔
کتابیں خریدنے کیلئے نیشنل بُک فائونڈیشن کی بُک شاپ جانا چاہتا تھا لیکن پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی جانب سے اجازت نہ ملی، فرمانے لگے کہ عنقریب کُتب بینی کیلئے ایک انقلابی پروگرام شروع کرنے لگا ہوں، جسکی افتتاحی تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کیلئے آپکو دعوت دی جائیگی۔ مزید کہنے لگے کہ یہ ایسا انقلاب آفرین منصوبہ ہے جسکے بعد کوئی کافر ہی ہوگا جو کتابیں خرید کر مطالعہ نہیں کر یگا۔ وہ منصوبہ تھا ’’بُک ریڈرز کلب‘‘ کا قیام ۔ جسکے تحت کلب کی رکنیت اختیار کرنیوالا شخص ملک بھر میں منظور شدہ کتب فروشوں سے پچاس فیصد رعایت پرکسی بھی پبلشر کی شائع کردہ اپنی پسندیدہ کُتب خرید سکے گا۔ یہ ایک طرح کا قارئین کیلئے سبسڈی پروگرام ہے۔ آپ منظور شدہ بُک شاپ سے ادب، درسی، پیشہ ورانہ علوم سمیت کسی بھی موضوع پر کتاب کی نصف قیمت ادا کرینگے جبکہ نصف قیمت کتب فروش کو نیشنل بُک فائونڈیشن کی جانب سے ادا کی جائیگی۔ گفتگو کو چند روز ہی گزرے تھے ’’بُک ریڈرز کلب‘‘ کی افتتاحی تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوگیا۔ تقریب کیا تھی۔ وفاقی دارالحکومت کے ادیبوں کی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔پَرتوروھیلہ، مقتدرہ قومی زبان کے سابق سیکرٹری محمد اکرام بلال، نیشنل بُک فائونڈیشن کے سابق سیکرٹری محمد اسلم رائو، ڈاکٹر عطش درانی، قیصرہ علوی، فرحین چوہدری، پروفیسر جمیل یوسف اور ادبی تقاریب کے معروف میزبان ملک فداالرحمن سمیت بہت بڑی تعداد میںنامور ادیب، شعراء، نقاد، نثر نگار ،محققین اور علم دوست شخصیات جمع تھیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بچوں کے ادب سے متعلق کئی کتب شائع ہوچکی ہیں نیز بازار سے بچوں کی دلچسپی کی حامل کتب خرید کر پرائمری اور ہائی ا سکولوں کی لائبریریوں کو تحفہ کی جارہی ہیں۔ بیرون ملک سفارت خانوں کو پاکستانی ادب اور ثقافت سے متعلق کتابیں بھجوائی جارہی ہیں۔قوم میں ہر سطح پرکتاب سے عشق اور شوقِ مطالعہ کو جلا بخشنے کیلئے نامور ادبی و سماجی شخصیات کوبڑی تعداد میں ’’کتابوں کا سفیر‘‘ مقرر کیا جارہا ہے تاکہ وہ قوم کو کتب بینی کی جانب راغب کریں ۔ علاقائی اور بیرونی زبانوں کے لٹریچر کے قومی زبان میں تراجم شائع کروانا بھی ایک بہت بڑی ادبی خدمت ہے۔ ہر سال22 اپریل کو ’’نیشنل بُک ڈے‘‘ منایا جاتا ہے جو اِس سال فائونڈیشن کے زیرِ اہتمام پانچ دن تک جاری رہا۔ صدر دفتر کی عمارت میں حال ہی میں ایک نادر ’’کتاب میوزیم‘‘ قائم کیا گیا ہے جس میں قلم اور کتاب کی مکمل تصویری کہانی کیساتھ ساتھ الہامی کتب کے قلمی و مطبوعہ نسخہ جات سمیت بیشتر قدیمی کتب کے نادر شہپارے رکھے گئے ہیں۔ جنہیں دیکھنے کے بعد بنی نوع انسان کی علمی، ادبی اور شعوری آگہی کی مکمل تاریخ نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ یہ فائونڈیشن کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اِس موقع پرراقم نے پیشکش کی کہ وہ پیمرا کے ممبر کی حیثیت سے فائونڈیشن کی مرتب کردہ تجویز پیمرا بورڈ کی میٹنگ میں زیر بحث لائیں گے کہ تمام الیکٹرانک میڈیا کو ہدایت کی جائے کہ وہ ایسے پروگرام پیش کرے جن سے قوم میں مطالعہ کتب کی عادت فروغ پاسکے نیز وہ، فائونڈیشن کی مرتب کردہ تجویز پر، وزیراعظم لیگل ریفارمز کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے حکومت کی لیگل ٹیم کے ساتھ مل کرنیشنل بُک فائونڈیشن کے ایکٹ میں ایسی ترامیم کروانے کی کوشش کرینگے کہ یہ فائونڈیشن ملک بھر میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر پبلک لائبریریاں قائم کرسکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے اپنی ابتداء سے زمانہِ حال تک جو بھی ترقی کی ہے وہ کتاب کی مرہونِ منت ہے۔ یہ کتاب ہی ہے جس نے اقوامِ عالم میں پائیدار اور دائمی ’’امن انقلاب‘‘ کی راہ ہموار کی۔ وہ امن انقلاب، جو پیار، محبت، شفقت، اخوّت، رواداری، برداشت، تحمل، قربانی، حق گوئی، سچ، ترقی کے یکساں مواقع اور وسائل کی مساویانہ تقسیم کا درس بھی دیتا ہے اور ان مقاصد جلیلہ کے حصول کیلئے راہِ عمل کا تعین بھی کرتا ہے۔ اپنے اپنے ادوار میں انجیل اور توریت نے معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے۔ آخری الہامی کتاب قرآن پاک تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ فلسفہ ، سماجی انصاف اور سیاست پر افلاطون کی کتاب ’’دی رپبلک‘‘ نے انمٹ نقوش مرتب کئے۔
کارل مارکس نے اپنی کتاب’’داس کیپٹل‘‘ میں سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں کا جائزہ پیش کیا۔ فری مارکیٹ اکانومی پر ایڈم اسمتھ کی کتاب ’’ویلتھ آف نیشنز‘‘، انسانی حقوق پر ’’میگنا کارٹا‘‘ نیز نیوٹن، ولیم شیکسپئر اور چارلس ڈارون نے انسانی سوچ اور معاشرے کی قدروں کو تبدیل اور متاثر کرنے میںاہم کردار ادا کیا۔ اِسی طرح تحریکِ پاکستان میں شاعرِ مشرق سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے مطبوعہ کلام اور خطبہ الٰہ آباد نیز پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی صدر چوہدری رحمت علی کی کتاب ’’پاکستان: فادر لینڈ آف دی پاک نیشن‘‘ اور اُن کی جانب سے جاری کئے گئے اعلانِ آزادی ’’نائو آر نیور‘‘ نے پاکستان کے حصول کی منزل قریب تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ ادارے شخصیت ساز ہوتے ہیں لیکن کچھ شخصیات ادارہ ساز ہوتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید بلا شبہ ایک ادارہ ساز شخصیت ہیں۔ انہوں نے اس سال ماہ ستمبر میں کراچی میں ’’شہرِ کتاب‘‘ آباد رکھا جب کہ اگست میں کوئٹہ میں ’’آزادی کتاب میلہ‘‘ منعقد کیا اور کروڑوں روپے کی کتب فروخت کرکے ’’امن انقلاب بذریعہ کتاب‘‘ کی بنیاد رکھ دی ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم سب بھی اِس عظیم قومی مقصد میں اُن سے تعاون کریںاپنے اپنے حصہ کی مشعل روشن کریں۔