• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بار پھر پاکستان کا وفاق ڈگمگانے لگا‘ چند راتیں پہلے کے پی ‘ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی سربراہی میں کے پی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو پنجاب میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ان پر پنجاب حکومت‘ وفاقی حکومت اور فرنٹیئر کانسٹیبلری نے جو جارحیت کی اس کی مثال اب تک پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی‘ ان کارکنوں کی اکثریت پختون تھی‘ یہ کارکن اپنے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں پارٹی رہنما عمران خان کی کال پر اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں شرکت کرنے کے لئے آرہے تھے‘ عمران خان کی پارٹی کا مطالبہ تھا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف جو الزامات سامنے آئے ہیں ان کی بنا پر وہ استعفیٰ دیں یا ایک قابل قبول ٹی او آر زکے تحت ایک اعلیٰ سطحی عدالت کا سامنا کریں‘ جسے عمران خان اپنے خاص انداز میں ’’تلاشی‘‘ کہہ رہے تھے‘ لہذا ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف استعفیٰ دیں یا تلاشی دیں‘ ماضی میں ایسے لانگ مارچ اور دھرنے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور حکمرانوں سے ایسے مطالبات بھی ہوتے رہے ہیں‘ یہ سب کچھ خود میاں نواز شریف بھی کرتے رہے ہیں تو پیپلز پارٹی بھی کرتی رہی ہے‘ مگر اب کی بار ایک منتخب وزیر اعلیٰ کی قیادت میں کے پی ‘ کے سیاسی کارکنوں کے پنجاب میں داخل ہونے پر ان سے جو سلوک کیا گیا وہ پاکستان میں اب تک دیکھنے میں نہیں آیا‘ ملک بھر کے لوگ جو اس رات ٹی وی چینلز پر یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ان میں سے اطلاعات کے مطابق اکثر ایک دوسرے سے سوال کرتے رہے کہ آخر ’’شریف‘‘ یہ سب کچھ کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ ملک بھر کے لوگوں نے ٹی وی چینلز پر دیکھا کہ کے پی۔ پنجاب کی سرحد سے بنی گالہ اور اسلام آباد تک اہم پلوں اور چوراہوں پر نہ صرف بڑے بڑے کنٹینر ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیئے گئے بلکہ ساتھ ہی موٹر وے کے ان حصوں پر باقی بچی ہوئی زمین پر کنکر اور مٹی کے بڑے ڈھیر ڈال دیئے گئے تھےاورجب کے پی کےیہ سیاسی کارکن کے پی پنجاب سرحد کے پہلے پل پر پہنچے تو ان کے ساتھ چار پانچ بڑی بڑی کرینیں بھی تھیں‘ ظاہر ہے کہ وہ یہ کرینیں راستے پر کھڑے کیے گئے بڑے بڑے کنٹینرز کو موٹر وے سے ہٹاکر ایک طرف کرنے کے لئے تھیں‘ ساتھ ہی وہ ایسی مشینیں بھی لائے تھے جن سے وہ ریت اور مٹی کے ڈھیر بھی ہٹا سکیں‘ مگر اس بات کی گواہی ٹی وی چینلز پر یہ منظر دیکھنے والے پاکستان کے شہری بھی دیں گے کہ کے پی ‘ کے وزیر اعلیٰ اپنے ساتھ نہ ٹینک لائے تھے‘ نہ توپ لائے تھے اور کارکنوں کے پاس بندوقیں اور پستول بھی نہ تھے‘ وہ سب خالی ہاتھ تھے‘ وہ فقط نعرے لگا رہے تھے‘ مگر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا تھا؟ دوسری طرف یعنی پنجاب کی پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوان مسلح نظر آئے‘ یہ جوان ہدایات ملنے پر ان سیاسی کارکنوں پر یا تو اندھا دھند بندوقیں تان کر گیس کے شیل فائر کررہے تھے یا ربڑ کی گولیوں سے پختون سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنا رہے تھے‘ اطلاعات کے مطابق کچھ کارکنوں کی حالت اتنی خراب ہوگئی کہ انہیں گاڑیوں کے ذریعے شہروں کے اسپتالوں کی طرف فوری بھیجا جاتا رہا‘ بعد میں یہ بتایا گیا کہ جو گیس ان شیلز میں استعمال کی گئی تھی وہ انتہائی زہریلی اور انسانوں کے لئے خطرناک تھی‘ بعد کی کچھ غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق اس زہریلی گیس میں سانس لینے کی وجہ سے دو سیاسی کارکنوں کی حالت اتنی خراب ہوگئی کہ وہ انتقال کرگئے‘ اگر یہ اطلاع درست ہے تو ان کے قاتل کون ہیں؟ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان‘ پنجاب کے وزیر اعلیٰ یعنی ’’خادم پنجاب‘‘ شہباز شریف یا وزیر اعظم نواز شریف؟ خدا کرے کہ دو سیاسی کارکنوں کی اس طرح کی موت کے بارے میں اطلاعات درست نہ ہوں‘ مگر ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ایک صوبے کے سیاسی کارکنوں کے پنجاب میں داخل ہونے کو روکنے کے لئے یہ اقدامات کیا قتل کی کارروائی سے کچھ زیادہ مختلف ہیں۔؟ کوئی تین گھنٹے کے اندر کے پی کے کارکن اپنے ساتھ لائی گئی کرینوں کے ذریعے ان کنٹینرز کو ہٹانے اور مشینوں کے ذریعے ریت کے ڈھیروں کو موٹر وے سے صاف کرنے میں کامیاب ہوگئے‘ اس طرح یہ سیاسی قافلہ ان ساری جارحانہ کارروائیوں کے باوجود پنجاب کے علاقے میں داخل ہوگیا‘ مگر یہاں دیکھا گیا کہ دو تین ہیلی کاپٹر آکر ’’میدان جنگ‘‘ کے اطراف میں پنجاب کی طرف اترے‘ اس کے بعد یہ ہیلی کاپٹر وقت بہ وقت ان جھڑپوں کی مانیٹرنگ کرنے کے لئے آتے رہے‘ ایسے لگا کہ یہ دو صوبوں کی سرحد نہیں بلکہ دو ملکوں کی سرحد ہے اور یہ ٹکرائو دو صوبوں کے درمیان نہیں دو ملکوں کے درمیان ہے‘ ایک طرف پنجاب میں داخل ہونے والے کے پی کے ان سیاسی کارکنوں پر یہ حملے ہوتے رہے تو دوسری طرف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں پی ایم ایل (ن) کے ترجمان طلال چوہدری‘ وفاقی وزیر سعد رفیق‘ دانیال عزیز اور محمد زبیر وغیرہ بار بار آکر تحریک انصاف پر جو لفظوں کی بمباری کررہے تھے اس کی بھی ماضی میں مثال ملنا ممکن نہیں‘ اس لفظی بمباری نے بھی تحریک انصاف کے کارکنوں اور خاص طور پر کے پی کے لوگوں میں نفرت کے ایسے بیج بوئے ہوں گے کہ اگر یہ بیج فصل میں تبدیل ہوجاتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا؟ اسی طرح ڈنڈا بردار اور مسلح پنجاب پولیس و فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوانوں نےدو دن جس طرح عمران خان کی رہائش گاہ کا گھیرائو کر رکھا تھا اور یہاں بھی کنٹینرز لگا دیئے گئے تھے‘ یہی حال اسلام آباد کے مختلف مقامات کا کردیا گیا تھا اور اس دوران بنی گالہ آنے والے تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں پر تشدد کیا جارہا تھا۔ ایک موقع پر پہاڑوں کو عبور کرکے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ پہنچنے والے کارکنوں میں سے جب ایک سے ایک چینل کی خاتون رپورٹر نے انٹرویو کیا جو ملک بھر کے لوگوں نے سنا ہوگا جس میں اس ورکر نے کہا کہ اس کا تعلق وزیرستان سے ہے‘ اس نے انتہائی جذباتی انداز میں بولتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے چینل کے ذریعے نواز شریف کو پیغام دیتا ہوں کہ آپ نے کے پی ‘ کے لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے تو اس کے نتیجے میں ملکی وحدت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔


.
تازہ ترین