اسلام آباد( فخر درانی) سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے کہا ہے کہ فاضل عدالت کے پاس پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے ٹی او آرز بنانے کے اختیارات نہیں جبکہ فاضل عدالت کے ایک اور سابق جج کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے احتراز کرنا چاہئے۔ کچھ دیگر آئینی ماہرین کے اس معاملے پر خیالات مختلف فیہ ہیں تاہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ فاضل عدالت کے ذریعے اس کیس کے فیصلے کا مطلب یہ ہوگا کہ متاثرہ فریقوں کو اپیل کا حق حاصل نہیں ۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا اگرچہ خیال ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت اور اس معاملے کا فیصلہ کر سکتی ہے تاہم انہوں نےبھی نصیحت کی ہے کہ فاضل عدالت کو چاہئے کہ وہ کمیشن بنانے سے گریز کرے، معاملات کو پیچیدہ بنانے کے بجائے فاضل عدالت کو چاہئے کہ وہ آئین کی شق (3) 184کے تحت براہِ راست اپنے اختیارات استعمال کرے۔ سابق وزیر قانون اور آئینی ماہر خالد انور کے خیال میں ، سپریم کورٹ آرٹیکل (3) 184کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے نہ صرف کمیشن تشکیل دے سکتی ہے بلکہ ٹی او آرز بھی بنا سکتی ہے۔ سینئر آئینی ماہر عابد حسین منٹو کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجموعہ ضابطہ دیوانی کے تحت جوڈیشل کمیشن مقرر کررہی ہے ، منٹو نے کہا کہ فاضل عدالت مجاز ادارے کے طور پر کمیشن قائم کررہی ہے تو وہ ٹی او آرز بھی بنا سکتی ہے تاہم جسٹس (ر) وجیہہ الدین اور خالد انور کے دلائل کے مقابلے میں جسٹس سعید الزمان نے آرٹیکل (3) 184 کے بارے میں کہا کہ آرٹیکل (3) 184کو خصوصی حالات میں ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل (3) 184 کا استعمال اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی عوامی مفاد کا معاملہ ہو یا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے کہا کہ جب تک پارلیمان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء میں ترمیم کر کے عدالت کو اختیارات نہیں دیتی سپریم کورٹ کے پاس ٹی او آرز بنانے کا اختیار نہیں۔ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل (3) 184 کے تحت حاصل اختیارات کو عوامی مفاد یا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں استعمال کرسکتی ہے ، لگتا ہے کہ اس آرٹیکل کو استعمال کرکے خصوصی اختیار سماعت تخلیق کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاضل عدالت معاملات کو پیچیدہ بنا رہی ہے اور سوال اٹھایا کہ جب جوڈیشل کمیشن اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے5رکنی بنچ کے روبرو پیش کرے گا تو تقریباً ہر فریق اس کے فیصلے پر اعتراضات اٹھائے گا ایسے میں کیا 5رکنی بنچ ان اعتراضات کا جائزہ لے گا اور متاثرہ فریقوں کو سنے گا؟ اگر نہیں تو پھر کس طرح یہ معاملہ طے کیا جائے گا ؟ انہوں نے کہا کہ اس لئے فاضل عدالت کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء میں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ سے اختیارات حاصل کرے۔ سینئر آئینی ماہر عابد حسن منٹو کے کمیشن کی ضابطہ دیوانی کے تحت تشکیل اور ٹی او آرز بنانے کے بارے میں خیالات پرسابق چیف جسٹس نے کہا کہ ضابطہ دیوای کے تحت عدالت کسی طویل عرصہ سے زیرالتواء معاملے کے حل کیلئے اپنی معاونت کے طورپر جوڈیشل کمیشن بناتی ہے تاہم انہوں نے کہاکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ضابطہ دیوانی کے تحت قائم کمیشن کو سپریم کورٹ اختیارات کس طرح دے گی ؟ بہترین دستیاب راستہ یہی ہے کہ فاضل عدالت آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ سے اختیارات حاصل کرنے کی بعد کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت کمیشن تشکیل دے ،یہ سارا معاملہ سیاسی ہوچکا ہے سپریم کورٹ کواسے محتاط انداز میں طے کرناچاہئے ۔ جب ان سے استفسار کیاگیا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پرپانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد کیامتاثرہ فریق کودادرسی کاحق ملے گا ؟توانہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ انصاف کے حصول کاسب سے بڑا ادارہ ہے اوراس کے خلاف اپیل کاکوئی حق نہیں ۔سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین نے ’’دی نیوز‘‘سے بات کرتے ہوئے کہاکہ فاضل عدالت کے پاس آرٹیکل(3)184اورآرٹیکل 99کے تحت وسیع اختیارات ہیں ،عدالت نہ صرف کمیشن تشکیل دے سکتی ہے بلکہ وہ ٹی او آرز بھی بناسکتی ہے تاہم کسی فرد واحد پرتوجہ مرکوز کرنے کی بجائے فاضل عدالت کو دیگر لوگوں خاص طورپر سیاسی جماعتوں کے ان لیڈروں کوبھی اس میں شامل کرناچاہئے ،جن کی مبینہ طورپر آف شور کمپنیاں ہیں ،بصورت دیگر فاضل عدالت کا فیصلہ متنازع ہو جائے گا۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اپوزیشن اورحکومتی جماعتیں ٹی او آرز پر متفق نہیں ہو سکیں اس لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ ٹی او آرز پر فیصلہ کرے۔ اپوزیشن کے ٹی او آرز کا مرکز حکومت اور حکومتی ٹی او آرز کا مرکز اپوزیشن ہے۔ دونوں صرف اپنے آپ کو بچانے کے لئے کوشاں ہیں، اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ آگے آئے اور اس معاملے کو ہمیشہ کے لئے حل کردے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء ایک ذیلی قانون ہے جو آئین کا متبادل نہیں ہو سکتا اس لئے دیگر امور پر توجہ دیئے بغیر سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ کھل کر کام کرے۔ میرے خیال میں کمیشن بنانے کی بجائے فاضل عدالت کو خود اس کی سماعت کرنی چاہئے کیونکہ اس کے پاس آئین کے تحت بہت سے اختیارات موجود ہیں۔ ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر قانون اور معروف آئینی ماہر خالد انور نے کہا کہ سوموٹو اور آرٹیکل (3)184 کے تحت سپریم کورٹ کے پاس بہت سے اختیارات ہیں، فاضل عدالت نہ صرف کمیشن بلکہ ٹی او آرز بھی بنا سکتی ہے ۔ خالد انور نے کہا کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے محدود اختیارات اور دائرہ ہے ، اس ایکٹ کے تحت کمیشن کی رپورٹ یا فیصلہ حکومت کو بھیجا جاتا ہے، ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ حکومت کم ہی اسے عوام کے لئے جاری کرتی ہیں، میرے خیال میں آرٹیکل(3) 184 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فاضل عدالت کمیشن اورٹی او آرز بنا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کمیشن اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے دیتا ہے تو 5رکنی بنچ کا کام صرف اس رپورٹ پر عمل درآمد یقینی بنانا رہ جاتا ہے اور فاضل عدالت اس رپورٹ کے نتائج کو تبدیل نہیں کر سکتی ، تاہم انہوں نے کہا کہ متاثرہ فریق کے لئے اپیل کا کوئی حق نہ ہوگا ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کمیشن اپنی تحقیقات اور دیگر ملکوں سے کس طرح دستاویزات حاصل کرسکتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ دیگر ملکوں سے دستاویزات کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں، درخواست گزار اورمدعا علیہان حلف پر شواہد پیش کریں گے، اس کی بنیاد پر کمیشن اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے گا۔ سینئر آئینی ماہر عابد حسن منٹو نے ’’دی نیوز‘‘ سے بات چیت میں کہا کہ فاضل عدالت کے پاس کمیشن کی تشکیل کے اختیارات موجود ہیں، جوڈیشل کمیشن نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کرنا ہیں اس لئے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت یہ کمیشن تشکیل نہیں دیا جاسکتا لیکن مجموعہ ضابطہ دیوانی کے تحت فاضل عدالت ٹی او آرز بنا سکتی ہے، چونکہ فاضل عدالت جوڈیشل کمیشن بنا رہی ہے تو اسے ضابطہ کا ر بنانے کا بھی حق حاصل ہے۔ جب ان سے پوچھا گیاکہ کیا فاضل عدالت کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق ملے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک بے ربطگی ہے جسے عدالت کو واضح کرنا ہوگا کہ کیا کوئی فریق کمیشن کی رپورٹ کے خلاف اپیل کرسکتا ہے یا نہیں؟ تاہم انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی حق موجود نہیں۔