• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجابی محاورے کے مطابق ، مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آگئی ہے۔ حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے ’’عقلِ سلیم بروئے کار آئی‘‘ والی بات بھی کہی جاسکتی ہے۔ ۔۔۔۔Good sense prevails۔۔۔۔ عمران خان کا تازہ ترین ارشاد ہے، عام انتخابات 2018ہی میں ہوں گے، جس کے لئے انہوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ انہیں اس اعتراف میں بھی کوئی عار نہ تھی کہ ان کا یہ یقین درست نہیں نکلا کہ انتخابات 2015میں ہوجائیں گے۔لیکن اس میں خان کا کیا قصور؟ اگست 2014کی دھرنا بغاوت کے اسکرپٹ رائٹرز نے تویہی یقین دلایا تھا کہ خان کی (اور کینیڈا پلٹ اُن کے سیاسی کزن کی مشترکہ) سعی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بڑے چوہدری صاحب بھی گزشتہ دِنوں شاہ زیب خانزادہ سے انٹرویو میں اعتراف کرچکے کہ اُن کا خیال تھا ، دھرنا زیادہ دِن نہیں لے گا لیکن یہ طویل ہوتا گیا، اوراس سے حکومت کو نہیں، ملک کو نقصان پہنچا۔ سول نافرمانی کے اعلانات، پی ٹی وی پر قبضہ ، پرائم منسٹر ہاؤس کی طرف مارچ اور استعفیٰ یہ سب اسی مہم کا حصہ تھے۔ خان نے ’’آنے والے جج‘‘ سے بھی اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں ساری کہانی طشت از بام کردی تھی۔
دھرنا بغاوت کی ناکامی ہی کیا کم تھی کہ چیف جسٹس کی زیرقیادت جوڈیشل کمیشن نے بھی ، 11مئی 2013 کے عام انتخابات کے متعلق خان کے تمام الزامات کو مسترد کردیا۔ سچ بات یہ ہے کہ 35پنکچروں سمیت کئی الزامات تو کمیشن کے سامنے پیش ہی نہ کئے گئے، کہ خود خان کے بقول یہ سنی سنائی باتیں تھیں جن کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔ جوڈیشل کمیشن نے جس طرح کارروائی کو آگے بڑھایا، تحریکِ انصاف کے وکیل کو پورا موقع دیا اور عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے، خان نے اس کی تحسین کرتے ہوئے، کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ (اپنے ایک تازہ بیان میں انہوں نے اسے نظریہ ٔ ضرورت پر مبنی قرار دیا ) اب اِن کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ڈھائی تین سال تک خیبر پختونخواکو اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنائیں گے، (انہوں نے صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کا بھی اعلان کیا) تاکہ 2018کی انتخابی مہم میں وہ خیبر پختونخوا کو باقی تین صوبوں کے سامنے تبدیلی کے ماڈل کے طور پر پیش کرسکیں۔ 2013میں پنجاب میں خادمِ اعلیٰ کی کارکردگی نے مسلم لیگ(ن) کو خاطر خواہ فائدہ پہنچایا تھا لیکن بے قرار طبیعت کو قرار کہاں؟ اب لاہور میں حلقہ 122کے ضمنی الیکشن کو خان نے سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیاتھا۔ یہاں تحریکِ انصاف کی کامیابی کی صورت میں، عمران خان مئی 2013کے پورے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دے کر ایک نیا طوفان اُٹھانے کی کوشش کرتے ۔ خان کے شخصی کرشمے، چوہدری سرور کی مہارت، علیم خان کی دولت، ڈور ٹو ڈور مہم اور حلقے میں دوبھرپور انتخابی جلسوں پر مشتمل انتخابی مہم کے مقابل سردار ایاز صادق کی مہم کی قیادت نوجوان حمزہ شہبازشریف کر رہے تھے۔ خواجہ سعد رفیق کی محنت اور مہارت بھی بروئے کار تھی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمران خان تو انتخابی مہم کے لئے آزاد تھے لیکن نوازشریف یا شہباز شریف کو، حکومتی پروٹوکول اور سرکاری وسائل کے بغیر ، ذاتی حیثیت میں بھی الیکشن مہم کا حصہ بننے کی اجازت نہ تھی۔
11اکتوبر کو مقابلہ neck to neck رہا اور ایازصادق نے ڈھائی ہزار ووٹوں کے ’’تھن مارجن‘‘ کے ساتھ ہی سہی ، یہ معرکہ جیت لیا لیکن 53ہزار جعلی ووٹوں سمیت خان کے دھاندلی کے تمام الزامات کی قلعی کھل گئی تھی۔ ضمنی انتخاب کے سارے عمل میں فوج کی موجودگی (اور نگرانی ) اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب سمیت خان کے تمام مطالبات الیکشن کمیشن نے تسلیم کر لئے تھے ۔ خان نے اس روز پنجاب بھر سے اپنے 10ہزار ٹائیگرز کو بھی لاہور بلالیا تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود علیم خان ہار گئے تو خان نے ووٹر لسٹوں میں ردّوبدل کو عذر بنالیا۔ الیکشن کمیشن اس کا کافی وشافی جواب دے چکا، لیکن سابق گورنر چوہدری سرورکی زیرقیادت پی ٹی آئی کی ایک ٹیم ووٹر لسٹوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ الیکشن مہم کے آخری دِنوں میں چوہدری صاحب اتنے پُراعتماد تھے کہ اپنے دوست اخبار نویسوں کے سامنے دھڑلے سے دعویٰ کرتے کہ یہ الیکشن ہار جانے کی صورت میں وہ سیاست ہی سے دستبردار ہوجائیں گے۔ اب اِن کا کہنا ہے ، وہ ووٹر لسٹوں میں ’’دھاندلی ‘‘ ثابت نہ کرسکے تو سیاست سے استعفے دے کر گھر بیٹھ جائیں گے۔
خان نے اب مڈٹرم الیکشن کے امکانات کو معدوم پاکر، 2018کے لئے تیاریوں کا فیصلہ کیا ہے، تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اور ظاہر ہے ، اس کے لئے ان کی توجہات کا اصل مرکز خیبر پختونخوا ہوگا۔ ’’نئے پاکستان‘‘ سے قبل انہیں’’نیا خیبرپختونخوا‘‘ بناناہوگا لیکن اس کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے اور ادھر صرف ڈھائی سال باقی ہیں۔ گویا وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔
حلقہ122کی انتخابی مہم کے لئے ، وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اپنی کابینہ کے بعض ارکان کے ساتھ لاہور تشریف لائے تھے۔ یہاں اخبار نویسوں سے گفتگو میں انہوں نے خیبر پختونخوا میں اپنی سوا دوسالہ کارکردگی پر روشنی ڈالی۔بڑی صاف گوئی سے انہوں نے ’’اعتراف ‘‘کیا کہ عوام نے انہیں میگا پروجیکٹس کے لئے نہیں، بلکہ سسٹم کی تبدیلی کے لئے مینڈیٹ دیا تھا چنانچہ یہی ان کی ترجیح ِ اوّل ہے۔ اس کے لئے قانون سازی کا بہت سا کام ہوچکا۔ ان کا کہنا تھا، خیبر پختونخوا جیسا غریب صوبہ 50،60ارب روپے کی میٹروبناسکتا ہے ، نہ اس پر ماہانہ اربوں کی سبسڈی دے سکتا ہے۔ اِن کا کہنا تھا، اب باقی ماندہ تین برسوں میں عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی تعمیر وترقی کے عملی اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ اس کے لئے اُنہوں نے ایک ارب درخت لگانے کا (خان کا اعلان) دُہرایا۔اس پر ہمارے دوست ایک اخبار نویس نے کیلکولیٹر نکالا(موبائل فون نے کام کتنا آسان کردیا ہے)، چند سیکنڈز میں حساب لگایا اور جناب خٹک کو توجہ دِلائی کہ تین برس میں ایک ہزار پچانوے دِن ہوتے ہیں۔ اس حساب سے آپ کو روزانہ 913247درخت لگانے پڑیں گے۔ (فی گھنٹہ 38052 درخت) کیا عملاً یہ ممکن ہوگا؟ ان ہی دِنوں کے پی کے سے سینئر صحافیوں کا ایک وفد بھی لاہور کے دورے پر تھا، وہ اپنے صوبے کی جو تصویر دِکھارہے تھے ، جو کہانی سنا رہے تھے، وہ بہت مختلف تھی۔ ان کے بقول ، وہاںترقیاتی کاموں کے حوالے سے دکھانے کے لئے عملاً کچھ بھی نہیں۔ حیاتِ آباد کے پوش علاقے میں ایک اوورہیڈ برج بن رہا ہے جو شاید موجودہ حکومت کی مدت میں مکمل ہوجائے۔ کرپشن تو تب ہوگی، اگر کام ہوگا۔ جہاں 70فیصد خرچ ہی نہ ہوں ، وہاں کرپشن کتنی ہوگی؟ اُنہوں نے خیبر پختونخوا حکومت کے معاملات میں بنی گالہ اور جہانگیر ترین جیسے رہنماؤں کی مداخلت کی بات بھی کی۔یہ خیبر پختونخوا کی تصویر کا دوسرا رُخ تھا۔
تازہ ترین