• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی دانا کا قول ہے کہ ’’اُس قوم کی ترقی دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی جس کے نوجوان ذمہ دار اور محنتی ہوں لیکن اگر اُس قوم کے نوجوان کاہل اور لاپروا ہوجائیں تو بربادی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔‘‘ نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں جو اپنی قوم میں نئی زندگی اور انقلاب کی روح پھونکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے بیشتر قوموں کی بیداری اور ان کے انقلاب کا سہرا نوجوانوں کے سر جاتا ہے۔ دنیا میں نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے جن میں سے کچھ نوجوان ملک کی اعلیٰ قیادت کے منصب تک پہنچ چکے ہیں جس کی حالیہ مثال کینیڈا میں لبرل پارٹی کے منتخب وزیراعظم جسٹن ٹروڈو ہیں جو کینیڈا کے سابق وزیراعظم پیریر ترودیو کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے الیکشن میں تغیراتی تبدیلی، ٹیکسز، منشیات اور خواتین کے حقوق جیسے اہم ایشوز پر اپنی جارحانہ پالیسی کے ذریعے لوگوں میں شہرت پائی۔ آج کل سوشل میڈیا پر کینیڈا کے نومنتخب وزیراعظم کو غیر ملکی ثقافت میں ڈھلتے دکھایا گیا ہے جس میں وہ کرتا شلوار پہنے مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں ضیافت کرتے اور سکھوں کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے نظر آتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم میرے دوست نوید بخاری نے بتایا کہ جسٹن ٹروڈو کادوستانہ رویہ دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جسٹن ٹروڈو کینیڈا کے وزیراعظم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جسٹن ٹروڈو نے الیکشن ہی نہیں بلکہ لوگوں کے دل بھی جیتے ہیں، نومنتخب وزیراعظم شلوار اور کولہا پوری چپل پہن کر مقامی مسجد گئے جہاں انہوں نے پاکستانیوں کے ساتھ بریانی کی ضیافت کا مزہ اڑایا اور وہ کسی بھی پاکستانی سے زیادہ پاکستانی لگ رہے تھے۔ اس کے برعکس پاکستان میں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں یہ رویہ عوامی نمائندہ ہونے کی نفی کرتا ہے۔
دنیا میں ینگ گلوبل لیڈرز کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر انقلاب میں نوجوان طبقے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کا جذبہ اور انقلاب لانے کی امنگ ہوتی ہے۔ یہ مضبوط عزم اور بلند حوصلہ ہوتے ہیں۔ ان کی رگوں میں گرم خون اور سمندر کی سی طغیانی ہوتی ہے۔ ان کی قابلیت و ذہنی صلاحیتیں انھیں حالات کا رخ موڑ دینے، مشکلات جھیلنے کیلئے اُبھارتی رہتی ہیں۔ پاکستان خوش نصیب ہے کہ جہاں 63 فیصد آبادی 25 برس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہے کہ یہ نوجوان طبقہ ان کی پارٹی کا حصہ بنے۔ عمران خان نے نوجوانوں کو سب سے موثر طریقے سے تحریک انصاف میں شامل کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی یوتھ لون اور لیپ ٹاپ اسکیم کے ذریعے نوجوان طبقے کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بھی بالآخر پارٹی کی قیادت نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے سپرد کردی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نوجوان نسل کو اپنے سیاسی دھارے میں شامل کرسکیں یوں آج ہر سیاسی جماعت کی طلباء تنظیم اور یوتھ ونگ نہایت اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔
گزشتہ دنوں فیڈریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سندھ لائژن کی چیئرپرسن مریم چوہدری نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں یوتھ کانفرنس کا انعقاد کیا جسے وزارت کھیل و امور نوجوانان سندھ نے اسپانسر کیا تھا۔ کانفرنس میں صوبائی وزیر امور نوجوانان فیاض علی بٹ، فیڈریشن کے سینئر نائب صدر رحیم جانو اور دیگر نائب صدور کے علاوہ میک اے وش فائونڈیشن کے صدر اشتیاق بیگ اور میں نے کی نوٹ اسپیکر کی حیثیت سے شرکت کی۔ کانفرنس میں بڑی تعداد میں نوجوان طلباء و طالبات نے شرکت کی۔ میں نے اپنی تقریر میں طلباء کو بتایا کہ نوجوانوں کو یقینا سیاست میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے لیکن ایسا کرتے وقت وہ اپنی سیاسی جماعت کا آلہ کار نہ بنیں اور اپنے آپ کو صرف سیاسی سرگرمیوں تک محدود رکھیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے طلباء کو اپنے مذموم مقاصد اور تشدد کی سیاست کیلئے استعمال کیا اور یہ نوجوان سیاسی طاقت کا سہارا لے کر ناجائز کاموں کی جانب راغب ہوگئے اور حاصل کی گئی ناجائز دولت کے نشے میں آہستہ آہستہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے گئے، پھر ان کیلئے اس راستے سے واپس لوٹنا ممکن نہیں رہا۔ بالآخر ان گمراہ نوجوانوں کو یا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کرلیا یا وہ پولیس و رینجرز مقابلے میں مارے گئے، اس طرح یہ گمراہ نوجوان اپنے بدنصیب والدین کیلئے کبھی ختم نہ ہونے والا دکھ چھوڑ گئے۔ میں نے ہمیشہ نوجوانوں کی یوتھ پارلیمنٹ اور دیگر یوتھ فورمز میں حوصلہ افزائی کی ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کریں جس سے ملک میں کرپشن، اقرباء پروری اور لوٹ مار کا خاتمہ کیا جاسکے لیکن میرا نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ وہ نہایت سوچ سمجھ کر سیاست میں قدم رکھیں اور ایسی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں جس کا ماضی بے داغ ہو اور پارٹی قیادت ملک و قوم کے مفاد میں مثبت پالیسیوں پر عمل پیرا ہو جو نوجوانوں کو صرف سیاسی سرگرمیوں تک محدود رکھے کیونکہ نوجوان نسل جذباتی ہوتی ہے اور طاقت کا نشہ انہیں اپنے اصل مقصد سے ہٹاسکتا ہے۔
طلبہ سیاست کا ملکی تاریخ میں اہم کردار رہا ہے۔ ملک کے کئی سیاستدانوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغا ز طالب علمی کے دور میں کیا جن میں اسفند یار ولی، عبدالمالک بلوچ، افراسیاب خٹک، الطاف حسین، حسین نقی، منور حسن، جاوید ہاشمی، قمر زمان کائرہ، احسن اقبال اور جہانگیر بدر کے نام نمایاں ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں جناح انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ آئندہ 20 برس کے دوران ملک میں ملازمتوں کے متلاشی نوجوانوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی جس کیلئے پاکستان کو 3 کروڑ 60 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے لیکن اگر یہ اقدامات نہ کئے گئے تو اس کی قیمت پاکستان کے جمہوری عمل کو ادا کرنا پڑے گی۔اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو مستقبل میں مثبت سیاسی کردار ادا کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے اور تعلیمی اداروں میں اصلاحات کی جائیں تاکہ طلباء تنظیمیں ایک ضابطہ اخلاق کے تحت کام کریں اور تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں۔
پاکستان پلاننگ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آبادی کی شرح میں 1.57% سالانہ اضافہ ہورہا ہے جس میں دو تہائی پاکستانیوں کی عمر 30 سال سے کم ہے جبکہ ہر 3 پاکستانیوں میں سے ایک نوجوان 14سال کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء تک پاکستان میں 15 سے 24 سال کے نوجوانوں کی تعداد میں 20% اضافہ متوقع ہے جبکہ 2030ء تک ملک میں 24 سال سے کم عمر نو جوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔ جس ملک کے پاس نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو، اس ملک کا ترقی نہ کرنا قابل افسوس بات ہے جس کی ایک وجہ ملک کے نوجوانوں کا غلط استعمال کیا جانا ہے۔ سیاستدان الیکشن میں ہر بار ایک نئے نعرے کے ساتھ نوجوانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں، ان کے ہاتھوں سے کتاب چھین کر سیاسی جھنڈا اور اسلحہ تھمادیا جاتا ہے۔ یہ سیاستدان اپنی تقریروں میں جلائو گھیرائو کیلئے نوجوانوں کو اکساتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو طالب علموں کا مستقبل عزیز تھا، اس لئے انہوں نے کبھی طالب علموں کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایا بلکہ ہمیشہ نوجوانوں کی کردار سازی پر زور دیالیکن ہمارے ملک میں زیادہ تر سیاستدانوں نے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے اور ملک کی حقیقی تعمیر و ترقی کیلئے کسی نے بھی ان کی کردار سازی نہیں کی۔ ملک میں مذہبی انتہا پسندی نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہے جس سے دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھاکر نوجوانوں کو مذہب کے نام پر استعمال کررہی ہیں۔ کراچی میں سانحہ صفورا گوٹھ اور دیگر سانحات میں ملوث جن افراد کو پکڑا گیا، ان میں زیادہ تر نوجوانوں نے ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے انجینئرنگ اور ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی لیکن انہیں مذہب کے نام پر گمراہ کرکے دہشت گردی کی لرزہ خیز وارداتوں میں استعمال کیا گیا جس میں سینکڑوں ہم وطن شہید ہوئے۔ یہ نوجوان اگر گمراہ نہ کئے جاتے تو وہ اپنی تعلیمی قابلیت سے معاشرے کو فائدہ پہنچا سکتے تھے۔ بہرحال کراچی میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات پر رینجرز اور پولیس نے کافی حد تک قابو پالیا ہے جس کیلئے میں ڈی جی رینجرز اور پولیس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میں آج کا یہ کالم اپنے نوجوان طلباء کے نام کرتا ہوں اور ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہماری امید ہیں، ہر اندھیرے کے بعد اجالا اور ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے، میں سرنگ کی دوسری طرف جو روشنی دیکھ رہا ہوں، وہ آپ ہی ہیں۔
تازہ ترین