محترم محمد سعید اظہر سے تعارف اور تعلق کو ایک زمانہ ہوگیا ،البتہ ملاقاتوں میں طویل وقفہ فاصلوں کا موجب بنا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہم ایک ہی سیاسی شاہراہ کے مسافر تھے اور علامہ محمد سعید اظہر کے فرمودات ذہن کو جلا بخشتے تھے، محترم سعید اظہر صاحب اور میں ایک ہی ہفت روزہ سے منسلک تھےالبتہ محمد سعید اظہرجنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں وابستہ ہوئے اور اس عرصے میں ،میں یہ ادارہ چھوڑ چکا تھا اور محترم سعید اظہر کچھ مدت تک اسلام آباد میں نمائندگی کرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں آزادی اظہار کا کیا عالم تھا، اس کا تصور بھی تکلیف دہ ہے ممکن ہے بھٹو صاحب کے طرز حکومت اور مخالفین کے ساتھ ان کے طرز عمل کی مخالفت میں آواز اٹھانا ا ور اظہار رائے کی آزادی پر اصرار کرنے میں کچھ لوگ غلطًی پر ہوںمگر ایک’’جمہوری حکومت‘‘ کے ان کے ساتھ سلوک کو انصاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کا تعلق ہے اب وہ اور ان کا فلسفہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب ان کا گلہ شکوہ کیا! رہی بات محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کی، ان کا قتل ایک قومی سانحہ ہے۔ وہ ایک مختلف رویوں کی قائد تھیں۔ ان کی موت اس ملک کی سیاست کی بربادی بن گئی، یہ بات میں بار بار لکھ چکا ہوں اس طویل تمہید کا مقصد محترم سعید اظہر کے اس صلہ عام سے فائدہ اٹھانا ہے جو انہوں نےاپنے کالم میں دیا ہے۔ یوں تو میں اس حوالے سے ایک طویل تحریر’’پیپلز پارٹی اپنی طبعی عمر پوری کرچکی‘‘ کے عنوان سے2013ءکے انتخاب سے قبل لکھ چکا ہوں لاہور کے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کے819ووٹ اور ان کی ضمانت ضبط ہونے کے حوالے سے یہ نتیجہ تو محترم سعید اظہراخذ کرچکے کہ لاہور میں جنم لینے والی پیپلز پارٹی کا نام تاریخی اصول کی روشنی میں قومی انتخابات کے ریڈار سے غائب ہوچکا اور پارٹی کے کسی سرگرم مقامی خبرنگار کی یہ رائے بھی بتادی کہ’’پیپلز پارٹی ختم ہوگئی‘‘مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی تو اسی دن کومے میں چلی گئی تھی جس دن 5جولائی کو ان کی حکومت ختم ہوئی، کوثر نیازی پروگریسو پیپلز پارٹی بنا کر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن میر، معراج صمد خان، افتخار تاری، چوہدری ارشاد، حنیف رامے، ملک سلیمان، غلام مصطفیٰ کھر، ڈاکٹر غلام حسین، نرگس زمان کیانی(سابق سینیٹر)عبدالمجید جتوئی، جے اے رحیم اور بہت سے دوسرے عتاب خسروانہ کی نذر ہوچکے تھے۔ ممتاز بھٹو ساتھ چھوڑ گئے تھے ، سوہنا منڈا (حفیظ پیرزادہ) عقد ثانی کے بعد ہنی مون پر چلے گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو نے بہت عذاب جھیلے ، قیدکاٹی، جلا وطنی اختیار کی۔88ءمیں واپس آئیں ان کا فقید المثال استقبال ہوا مگر یہ کہنا درست نہیں کہ ان کی پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ پیپلز پارٹی کی مطلوبہ اکثریت کے سبب تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ8ویں ترمیم کے ذریعے یہ صدر کا اختیار تھا کہ وہ کسی کو وزیر اعظم نامز دکرے اور نامزد وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لے۔ موجودہ وزیر اعظم کا مطالبہ تھا کہ پہلےا سپیکر کا انتخاب کرایا جائے جس کا امیدوار کامیاب ہو اس جماعت کا وزیر اعظم نامزد ہو، مگر غلام اسحاق خان جو ایک تابع مہمل قسم کی چیز تھے محترمہ کو نامزد کیا مگر اس شر ط کے ساتھ کہ وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ وہ اپنی مرضی کا نہیں لاسکتیں۔ سو جنرل ضیاء الحق کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب کو قبول کرنا پڑا۔ خزانہ کے وزیر مملکت احسان پراچہ ضرور تھے مگر آئینی مشیر خزانہ وی اے جعفری تھے اور پراچہ صاحب کا مصرف کچھ نہ تھا۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ محترمہ کے ساتھ شادی سے قبل جناب حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری ولی خان کی پارٹی نیپ کا حصہ تھے،85ء کے انتخابات کا محترمہ بینظیر بھٹو نے بائیکاٹ کیا تھا وہ ملک سے باہر تھیں اور کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ محترمہ کو بائیکاٹ کی راہ دکھانے والے مقتدروں کا کھیل کھیل رہے تھے۔
اب آئیے بھٹو مرحوم کی فکر و فلسفہ کے دوسرے وارثوں کو دیکھتے ہیں، جناب اعتزاز احسن77ءمیں صوبائی وزارت اطلاعات ا ور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو کر تحریک استقلال میں جا چکے تھے اور اصغر خان کی قیادت قبول کی جو بھٹو صاحب کو کوہالہ پل پر پھانسی دینے کا عزم رکھتے تھے۔ منظور وٹو کا سیاسی دین دھرم کا سراغ لگانا دشوار ہے۔ قمر الزمان کائرہ کب پیپلز پارٹی میں آئے؟ محترمہ شیری رحمن کا صحافت سے جی بھر گیا تو پیپلز پارٹی میں آگئیں، لبرل وہ جتنی بھی ہوں بائیں بازو کے نظریات کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتیں۔ محترمہ فریال تالپور، بس آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ہیں۔ یوسف رضا گیلانی جنرل ضیاء الحق کی نامز د مجلس شوریٰ کے رکن رہے، مارشل لاء کے زیر سایہ کابینہ کے رکن رہے۔ یقیناً مٹھائی بانٹنے والوں میں ان کا نام شامل رہا ہوگا۔ رحمان ملک، چوہدری ظہور الٰہی مین پاور کے وزیر تھے تو ان کی سفارش پر ادنیٰ سا ملازم ۔ باقی تفصیل محترم سجاد میر بتاسکتے ہیں۔ جناب لطیف کھوسہ، عامر کی فتح و شکست سے بے نیاز ایان علی کی وکلالت میں مصروف، اب جہاں دیکھا ’’توا پرات وہیں گزاری ساری رات‘‘ کا عقیدہ رکھنے والوں کو کون پیپلز پارٹی یا بھٹو کا جانشین کہہ سکتا ہے؟محترم سعید اظہر صاحب دوراستے بتاتے ہیں’’کیا ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فلسفے کا علم تھام کر بات کی جائے، کون کرے؟کیا بھٹو صاحب کی موت پر مٹھائی بانٹنے والے؟ دوسرا مشورہ ان کا یہ ہے کہ’’آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کی رضامندیوں کے سائے تلے اس فلسفے کو دنیاوی ہوس پرستوں پر مبنی ذاتی منفی ترقیوں کی کدال سے تاریخ کی قبر میں اتار دو‘‘سو یہ کام ہوچکا۔ وہ کیا بھٹو صاحب کا فلسفہ ان کے نعرے، ان کی جمہوریت ، ان کا سوشلزم، روٹی، کپڑااور مکان کا وعدہ، سو لیاقت باغ میں کربلا کا منظر، چالیس سے زیادہ لاشیں، تاج پورہ گرائونڈ کا سانحہ، مسلم مسجد میں نمازیوں کا قتل عام، خواجہ رفیق، ڈاکٹر نذیر کا قتل، اظہر مرزا اور جاوید لطیف کی جانثاری یہ بھی تو اسی دور کے تحفے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اب ان قربانیوں کا کوئی وارث نہیں۔اب آخری بات ’’انسانیت پرست، نظریاتی دیانتداریوں کے نقیب قلمکاروں کی خدمت میں محترم سعید اظہر کا سوال!سو آئیے محترم حسین نقی سے بات شروع کرتے ہیں۔ الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، محمد صلاح الدین، مجیب الرحمن شامی نے تو حرف اختلاف کی سزا پائی یہ بائیں بازو کے دانشور جناب حسین نقی کس جرم میں حوالہ زنداں کئے گئے تھے۔ بشیر ریاض کب ابتلاء کے دور میں ساتھ رہے ہیں؟ الطاف حسن قریشی، خالد چوہدری کو جو صلہ ملا وہ کافی نہیں ہے۔ حسن نثار اب صرف اخبار نویس ہیں، وہ کیوں سیاسی میدان میں اتریں۔ شاہد جتوئی اپنے قلم کا کمال دکھاتے رہتے ہیں، جی این مغل اور وجاہت مسعود صاحب سے کوئی شناسائی نہیں! اس سوال کا جواب تمام حضرات کا مشترک ہے ۔جی جناب! قومی انتخابی ریڈار پر پیپلز پارٹی کا نام واقعی819ہے، غریب آدمی جواب کا انتظار نہ کرے، بس کالم پڑھا کرے اور کسی مفید کام کی جانب توجہ دے۔ باقی122کے نتائج سے کیا کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ آنے و الا وقت بتائے گا۔