پنجاب میں وقتی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ”پرانی تنخواہ“ پر ہی کام کریں گی جس کا مطلب یہ ہے کہ پی پی پی اور اس کے گورنر سلمان تاثیر جناب شہباز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور گرانے کیلئے سازش نہیں کریں گے اور وزیر اعلیٰ پی پی پی کے وزراء کو اپنی کابینہ سے باہر نہیں نکالیں گے۔ مستقبل بنیادوں پر ان دونوں پارٹیوں کے درمیان اس قسم کا اتحاد خاصہ غیر فطری اور غیر منطقی لگتا ہے۔ تاہم یہ ہم آہنگی وقتی طور پرتو ہوسکتی ہے اور وہ بھی اسی شکل میں کو یہ دونوں کے سیاسی مفاد میں ہو۔ اب شاید دونوں پارٹیوں کو کافی حد تک یہ سمجھ آگئی ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کے پہلے چند ماہ میں اگر ایک دوسرے کی ٹانگ زیادہ زور سے کھینچی گئی اور اگر کوئی فریق گر گیا تو اس سے پورا نظام ہی ایک بار پھر پٹڑی سے نہ اتر جائے اس کے علاوہ اس طرح کے بڑھتے جھگڑے میں غیر جمہوری قوتوں کوایک بار پھر مداخلت کا موقع نہ مل جائے جس کے نتیجے میں صرف بڑے سیاسی کھلاڑی ہی سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ عوام کی سیاستدانوں سے بیزاری بڑھے گی اس لیے کہ انہوں نے اپنا ووٹ اس لیے صیحح استعمال نہیں کیا تھا کہ سیاستدان پھر سے لڑائی جھگڑا شروع کر دیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جس قدر بھی جس جماعت کو ووٹ ملے ہیں اس کے مطابق وہ جمہوری نظام میں حصہ حاصل کرے اور حکومت کو احسن طریقے سے چلائیں۔
پی ایم ایل (این)کہتی ہیں کہ اس نے اپنا مطالبہ کہ پی پی پی اپنے وزراء پنجاب کابینہ سے واپس لے پر اس لیے مزید زور نہیں دیا کہ کسی قسم کی سیاسی خرابی ایسے وقت میں پیدا نہ ہو جبکہ ملک سخت نازک اور خطرناک دوراہے پر ہے بمبار اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اس کی سوچ میں تبدیلی کافی دیر بعد آئی ہے حالانکہ پاکستان میں اس سے ملتے جلتے برے حالات کافی عرصہ سے ہیں اور ان میں ابتری موجودہ حکومت کے دور میں آئی ہے۔ پی پی پی تو سرے سے پنجاب کابینہ سے نکلنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ باوجود اس کے کہ پی ایم ایل۔ این نے پی پی پی سے اپنا اتحاد وفاقی سطح پر ختم کرنے کے بعد بار بار زور دیا کہ پیپلز پارٹی کے وزراء کو صوبائی کابینہ سے مستعفی ہوجانا چاہئے مگر وہ وزاتوں سے چمٹے رہے اور یہی کہتے رہے کہ اگران کی پارٹی صوبائی حکومت سے علیحدہ ہوگئی تو حکومت گر جائے گی کیونکہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے پاس پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔
پی ایم ایل۔ این کے سخت موقف کو تبدیل کرنے کیلئے پی پی پی نے گورنر سلمان تاثیر کو وزیر اعلیٰ کے خلاف مہم چلانے کیلئے میدان میں اتاراجس کا بڑا مقصد یہ تھا کہ پی ایم ایل۔ این کو اس بات پر مجبور کیا جاسکے کہ وہ پی پی پی کے وزراء کا صوبائی کابینہ سے علیحدگی کے بارے میں اپنے مطالبے سے دستبردار ہو ۔ اس مہم نے یہ مقصد تو حاصل کر لیا چاہئے پی ایم ایل ۔این اپنے مطالبے سے دستبرداری کی کچھ بھی وجہ بیان کرے۔ اب دونوں پارٹیاں اپنے پرانے فارمولے جس پر دونوں کا 18 فروری کے انتخابات کے فوراً بعد اتفاق ہوا تھا پر عمل کرنے پر تیار نظر آتی ہیں۔ اس کے مطابق پنجاب میں پی ایم ایل۔ این کو صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے حکومت کرنے کا اختیار ہے اور اس کو کسی بھی طریقے سے غیر مستحکم نہیں کیا جائے گا۔ دوسری بڑی پارٹی (پی پی پی) کو صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی حیثیت کے مطابق کابینہ میں نمائندگی ملے گی۔ اس طرح وفاقی سطح پر پی پی پی کو حکومت جو قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہونے کی وجہ سے ملی ہے کو غیر مستحکم نہیں کیا جائے گا۔ گورنر سلمان تاثیر اور وزیراعظم کے مشیر منظور وٹو کی ”مہم جوئی“ کے دنوں میں بھی پی ایم ایل ۔این اپنے اسی موقف پر قائم رہی کہ وہ وفاقی حکومت کے خلاف کسی طرح بھی کام نہیں کرے گے اور اسے گرنے نہیں دے گی۔ وقتی طور پر پی پی پی اور پی ایم ایل ۔این میں پنجاب کی سطح پر ہم آہنگی کی وجہ سے سلمان تاثیر کی ”دکان“ پر کچھ عرصہ کیلئے مندی رہے گی اور اگر اس کا کاروبار بہت زیادہ مندا پڑ گیا تو ” دکاندار “کی چھٹی بھی ہو سکتی ہے۔ گورنر اور منظور وٹو کی انتھک کوششوں کے باوجود آصف علی زرداری اپنے صدارتی الیکشن میں پنجاب میں اکثریتی ووٹ حاصل نہیں کرسکے تھے اور پی ایم ایل۔این نے صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت کا لوہا منوا لیا تھا اس سے اس کی حکومت کو بھی حوصلہ ملا تھا اور جو مہم اس کو غیر مستحکم یا ہٹانے کیلئے چلائی گئی تھی کو خاصہ دھچکا لگا تھا۔ سلمان تاثیر اور منظور وٹو ”صلاحیتیں“ بھی بری طرح ناکام ہوئیں۔ پی ایم ایل ۔کیو میں ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم صدارتی الیکشن میں بڑی واضح ہوگئی تھی ، یہ پارٹی اس وقت تین گروپوں میں تقسیم ہوئی اس کے ارکان پنجاب اسمبلی کی ایک بڑی تعداد پی ایم ایل ۔این کے ساتھ چلی گئی۔ دوسرا گروپ پی پی پی کے ساتھ چلا گیا اور تیسرا پی ایم ایل۔کیو کے ساتھ رہ گیا۔ تاہم پی پی پی اور پی ایم ایل۔این کی پنجاب میں ”صلح“ نے قاف لیگ کی اہمیت کو بہت حد تک کم کر دیا ہے ۔ اس پارٹی کی اہمیت اسی صورت میں ہوسکتی ہے بلکہ بڑھ بھی سکتی ہے جب دونوں بڑی پارٹیاں آپس میں لڑ تی رہیں اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کر تی رہیں ۔ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان لڑائی چھڑنے کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔ کافی عرصہ تک پی پی پی کے لئے یہ ہضم کرنا بڑا مشکل ہے کہ اس کا صدر، وزیراعظم اور اسپیکر ہونے کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں اپنی حکومت ہو اور صوبہ سرحد کی حکومت میں اس کا خاصا حصہ ہو مگر پنجاب میں اس کی حکومت اسی طریقہ سے نہ ہو جس طرح وہ چاہتی ہے۔ قاف لیگ کے بہت سے اب پریشان ہیں کہ انہوں نے کیا فیصلہ کیا۔ تاہم جو شہباز شریف کے ساتھ ہیں وہ خاصے خوش ہیں کیونکہ پنجاب حکومت ان کا ہر قسم کا خیال رکھ رہی ہے۔ مگر وہ ”لوٹے“ جو پی پی پی کے ساتھ گئے ہیں خاصے پریشان ہیں کیونکہ پی پی پی کو پنجاب میں حکومت تو نہیں مل سکی اور اس کے وزراء کو بھی وہ اختیارات حاصل نہیں ہیں جو کہ پی ایم ایل۔این کے وزراء کو ہیں ۔ فروری 2008ء کے انتخابات میں بھرپور شکست نے قاف لیگ کو سخت مشکل اور برے حالات میں دھکیل دیا تھا ۔ ان میں مزید ابتری اس وقت آئی جب پرویز مشرف کو بطور صدر پاکستان مستعفی ہونا پڑا۔ تاہم اس پارٹی کی اہمیت اس وقت بھرپور طریقے سے سامنے آئی جب پی پی پی اور پی ایم ایل۔این نے پنجاب میں لڑائی شروع کی۔ اس کی حیثیت کافی بہتر اور مضبوط ہو جاتی اگر یہ لڑائی جاری رہتی اور اس کا اختتام وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پرہوتا۔
پنجاب میں پی پی پی اور پی ایم ایل۔این کے درمیان بہتر ورکنگ ریلشنشپ کے اظہار سے قبل ہی اس کے آثار اس وقت نمایاں ہوئے جب چوہدری نثار علی خان اپوزیشن لیڈر مقرر ہوئے اور قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہوئے۔ اپوزیشن لیڈر ہونے کی حیثیت سے چوہدری نثار نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس (اگر کبھی منعقد ہوا) میں شریک ہو سکیں گے اور اپنی جماعت کا نقطہ نگاہ اعلیٰ فوجی قیادت کی موجودگی میں کھل کر بیان کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ وہ قومی اسمبلی میں پی ایم ایل۔این کے مرکزی نمائندے ہوں گے ان کی آواز پارٹی کی پالیسی ہوگی۔ شریف برادران نے چوہدری نثار کا ان اہم عہدوں کیلئے انتخاب سوچ سمجھ کر کیا ہے جو کہ بہت اچھا ہے۔ ان دو اہم عہدوں پر تقرری کے بعد چوہدری نثار کی پی ایم ایل۔این میں حثیت اور اہمیت مزید واضح ہوگئی ہے۔ ان کی پارٹی میں پوزیشن شریف برادران کے بعد آتی ہے۔