سابق امریکی صدر رچرڈنکسن کے بقول لیڈر ہمیشہ کثیرا لجہتی پر عمل پذیر ہوتا ہے اسکی ایک اپنی ذات ہوتی ہے اس ذات سے متعلق ایک عوامی ہالہ بھی موجود ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ایک چہرہ وہ ہوتا ہے جو محض اُس کے قریبی ساتھی دیکھتے ہیں یہ ممکن ہے کہ قریبی ساتھیوں کے چھوٹے گروہ پر بھی اسکی اصل شکل واضع نہ ہو اس لئے اس چھوٹے گروہ اور رائے عامہ دونوں کو اپنی جانب مائل کرنا ہوتا ہو اسے ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور دشمنوں کا انداز نظر جدا ہوتا ہے اسی طرح اسے مختلف حلقہ ہائے انتخاب میں بھی مختلف حالتوں میں جانا جاتا ہوں۔ لیڈر کی مثال اس داستان جیسی جس میں تین اندھے انسان ہاتھی کو اپنے اپنے تجربہ کی بنیاد پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہر کوئی کسی ایک عضو کو چھوتا ہے اور اسی کو ہاتھی سمجھتا ہے اسی طرح لیڈر کا ہر ناقد ہر مبصر ،ہر دُشمن، ہر دوست اُس کے کسی ایک پہلو سے آشنا ہوتا ہے اور دوسرے پہلو ئوںکو فراموش کردیتا ہے ۔کسی قائد یا رہنما کو عظیم ترین کی صف میں کھڑاکرنے کا یقینی فارمولا تین عناصر پر منحصر ہے۔ ایک عظیم قائد، ایک عظیم
مُلک، ایک عظیم، مسئلہ عظیم قوموں کی رہنمائی کرنے والے چھوٹے لوگ کسی بڑے بحران میں عظمت کی کسوٹی پر اپنے آپ کو واضع طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں یہ بھی ہوتا کہ کسی چھوٹے ملک کا کوئی عظیم آدمی عظمت کے سب معیارات پر پورا اُترتا ہو لیکن تب اُس کا مکمل طور پر اعتراف کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا بعض اوقات بڑے ملکوں کے بڑے آدمی دیو قامت انسانوں کے سائے میں مکمل طور پر نظر نہیں آیا کرتے ۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اور اس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ لوگ جن کو عرف عام میں عظیم کہا جاتا ہے وہ اچھے انسان بھی تھے ،یہ ظالم ، حاسد اور منافقت پسند بھی ہوسکتے ہیں اخلاقی میدان میں ہر اچھا اور بڑا آدمی یا انسان اپنی منکسر المزاجی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا قائد یا رہنما کے لئے عظیم بصیرت کا ہونا اشد ضروری ہے بصیرت بھی ایسی جو خود قائد کو تحریک دلا سکے ۔۔۔اور اس قابل بنائے وہ قوم کو متحرک کر سکے۔۔۔۔ لوگ گویا عام لوگ بڑے رہنمائوں سے نفرت اور محبت دونوں کرتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ وہ اُن سے لا تعلقی کا مظاہرہ کریں۔ محبت اور نفرت کرنے والے سوال کرتے بھی ہیں اور سوال کرنا اپنا حق بھی سمجھتے ہیں اور اگر اُن کو جواب نہ ملے تو پھر سوال کرتے ہیں کیونکہ محبت اور نفرت وضاحت چاہتی ہے، اقرار چاہتی ہے قائدکے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ صحیح شہ کو صحیح جانے اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہے… اور اس کی بھی نہ صرف وضاحت کرے بلکہ اُس کو عملی شکل میں واضع کرے فیصلہ صحیح یا غلط، وقت اور تاریخ کے علاوہ حالات و واقعات خود بیان کردیا کرتے ہیں اگر فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہو تو قیادت چھوڑ دینا چاہئیے۔۔۔ صحیح قائد میں مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے بصارت اور صلاحیت دونوں ضروری ہوتی ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ لیڈ ر کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے بہت محنت کرتا ہے اُسے مختلف تکالیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن کامیاب لیڈروں میں بھی ایک عادت مشترک ہوتی ہے۔ جب یہ فیصلے ماضی کا حصہ بن جائیں تو وہ اُن پر زیادہ تردد نہیں کرتے اور نہ ہی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں گویا لیڈر کہتے ہیں جو ہو چکا وہ ہو چکا ،پیچھے مُڑ کر مت دیکھوکیونکہ منزل ابھی آگے ہے لیڈر کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے ماضی پر یا ماضی میں کئے گئے کام پر یا کسی فیصلہ پر کبھی نادم نہیں ہوتا کیونکہ وہ اگر اس سوچ کا شکار ہو کہ ماضی میں یہ بھی ہوا تھا، وہ بھی ہوا تھا، تو وہ ذہنی طور پر صرف مفلوج ہو جائے گا اور اُس کی ذہانت بردباری اور کچھ کرنے کی ہمت ختم ہو جائے گی اس لئے اُس کو آنے والے کل کے بارے میں ہی سوچنا اور عمل کرنا چاہئیے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والے مستقبل میں بھی سفر کرنے کے قابل نہیں رہتے چہ جائیکہ وہ قیادت کرتے رہیں ۔ ہمارے ہاں آج کل ہر کوئی عمران خان کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہے 1993-94میں مجھے بطور انچار ج جنگ فورم عمران خان سے طویل ملاقات کاموقع ملا وہ تحریک انصاف کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے اُن پر خود بھی یہ واضح نہ تھا کہ اُن کے سیاسی جماعت کے خدو خال کیا ہونگے تاہم اُن کو یہ یقین تھا کہ وہ جو تحریک شروع کر چکے ہیں وہ ایک نہ ایک دن خواہ بیس برس بعد نہ صرف طاقتور ہوگی بلکہ کامیاب بھی ہوگی کرکٹر عمران خان اپنی والدہ کی بیماری میں سخت تکلیف کے شکار تھے والدہ کی محبت اُنھیں بے چین رکھتی تھی ،اُن کی وفات کے بعد اُنھوں نے فلاحی کام کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی اپنا مقام قائم کیا ہوا ہے، خود کو کپتان کہلوانے کے خواہش مند عمران خان جن کو چیتا بہت پسند ہے ،چیتے کی طرح آج کل زخمی ہیں یہ درست ہے کہ اُن کی طرح پاکستان میں کسی نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اس طرح محنت نہیں کی اور دُنیا کا مشکل ترین کام گویا چندا اکٹھا کرنے کا کام بھی اُنہوں نے زبردست طریقے کے ساتھ کیا بطور صحافی مجھے یقین نہ تھا کہ وہ میدان سیاست میں اس مقام پر پہنچ جائیں گے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کا جنون تھا پوری دُنیا میں چندہ اکٹھا کرنے کے لئے اپنی شہرت اور تعلقات کے ملاپ کو استعمال کیا ہر کوئی اُن سے شادی کے بارے میں سوال کیا کرتا تھا دُنیا بھر میں ہزاروں خواتین اُن سے شادی کی خواہشمند تھیں مگر اُن کی چوائس محترمہ جمائمہ خان بنیںیہ فیصلہ عمران خان کا اپنی زندگی کے حوالے سے ذاتی فیصلہ تھا افسوس کے یہ رشتہ قائم نہ رہ سکا ایک دوسری خاتون جن کے بارے میں اُن کا اپنا کہنا ہے کہ "مجھے خوشی ہے کہ کرسٹیان بیکرکو اسلامی ثقافت اور دین کے ساتھ متعارف کرانے کا اُنھیں موقع ملا اُسے نہ صرف صوفی میوزک اور دیسی کھانے پسند آئے بلکہ وہ شہ سُرخیوں سے بڑھ کر تہہ تک اُترنے اور مشاہدہ کرنے کا ذہن بھی رکھتی ہیں جس خلوص سے اُس نے اپنے لئے دین کی راہ کی دریافت کا سفر کیا اور ایمان کی ثابت قدمی پر قائم رہیں اُس کو داد دیتا ہوں کرسٹیان کی کتاب مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو یکساں متاثر کرے گی اللہ اُس پر رحمت فرمائے اور اُسے ہر طرح سے کامیاب کرے" کرسٹیان اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں وہ کئی مرتبہ پاکستان آئیں عمران خان کے گھر قیام کیا ،سفر بھی کیا، اور بقول اُن کے آپ اُن سے شادی کے خواہشمند تھے ،مگر شادی جمائمہ سے کی گئی بقول کرسٹیان عمران خان اور یوسف صلاح الدین نے دین اسلام سمجھنے میں مدد کی اور عمران خان شادی کے بعد پاکستان میں رہنا چاہتے تھے وہ بُزرگوں کی عزت کرتے ہیں اللہ پر اُنھیں کامل یقین ہے اور رسول ﷺ کے سچے عاشق ہیں باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں اور نامور عالم علی شریعتی کی کتاب کے ذریعے اُنھوں نے کرسٹیان کو اسلام کی طرف گامزن کیا ،پاکستان کی سابق وزیر اعظم کے بارے میں عمران خان کبھی سوال کا جواب نہیں دیتے اور سیتا وائٹ کے لئے اُن سے سوال نہیں کیا جاتا تاہم زندگی حقیقتیں تلخ ہیں ۔عمران خان ایک لیڈر ہیں اور لیڈروں کی نشاندہی کے حوالے سے اس کالم میں کافی کچھ کہا گیا مجھے افسوس ہے کہ اُن کی شادی ایک بار پھر کامیاب نہ ہو سکی بعض خواتین کے بارے میں مجھے تحریر کرنا گوارہ نہیں تاہم عمران خان ہیرو ہیں اُنھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں زیڈ اے سلہری، حمید گل ، محمدصلاح الدین ، حکیم سعید، عبدالستار ایدھی اور ملک غلام مرتضیٰ اور بہت سے لوگوں کے ساتھ سفر شروع کیا تھا مگر زندگی کے ہر دو سفر پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے اس کا جواب صرف عمران خان کے پاس ہے کہ ایسا کیا ہوا لیڈر تو زیرک بردبار دور اندیش ،صاحب حکمت، با صلاحیت،اور تحمل اور برداشت کا مالک ہوتا ہے نفرت اور محبت کرنے والے سوال تو کریں گے کیونکہ بظاہر اپنی زندگی کے تمام فیصلے ایک ضدی کے طور پر خود ہی کئیے تب آپ لیڈر نہ تھے صرف گیارہ کھلاڑیوں کے کپتان تھے اور اب ایک لیڈر بھی ہیں لوگ سوال تو کرینگے۔