دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جو کردار ادا کررہا ہے اوراس سارے مسئلے کو سلجھانے کے لئے جوواضح ، صاف اور جرأت مندانہ پالیسی درکارہے اس کے خدوخال کے بارے میں ہمارے ہاں سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض حلقوں کے نزدیک پاکستان کے لئے اب بھی اس کے سواکوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر مشرف کی بنیادی پالیسیوں ہی کو جاری رکھے کیونکہ ”ان پالیسیوں سے انحراف اور ان پرعملدرآمد کرنے سے انکار ہمارے لئے مزید مشکلات پیداکرسکتا ہے۔“ اس حلقے کی طرف سے عملاً یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان اس وقت جس ہمہ جہتی بحران میں گرفتار ہے اس سے صرف امریکہ ہی اسے نکال سکتا ہے۔اس لئے اس کی پالیسیوں سے کسی صورت انحراف نہیں کیا جانا چاہئے لیکن اس کے برعکس ایک دوسری رائے یہ ہے کہ امریکی پالیسیوں پرعملدرآمد سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے اور ان کے جاری رہنے کی صورت میں پاکستان کبھی موجودہ الجھنوں اور مشکلات سے باہر نہیں آسکتا۔ یہ دونوں نقطہ ‘ ہائے نظر ایسے ہیں جن پر پاکستانی قوم کا ایک بڑا حصہ متضاد خیالات کا شکارہو چکا ہے۔ ادھر دوسری طرف کیفیت یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور ان کے زیراثر حلقے اور ممالک خود طالبان سے رابطہ کررہے ہیں اور ان کے ساتھ اقتدار Shareکرنے کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ایسے میں ہمارے ہاں جو حلقے دہشت گردی کے بارے میں سابقہ اور موجودہ پالیسیوں ہی کوجاری رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ مدعی سست اور گواہ چست کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 8اکتوبر کو پارلیمینٹ کا جو بند کمرے کا اجلاس شروع ہوا تھا اس سے یہ توقعات وابستہ کی جارہی تھیں کہ پاکستان کی فوجی اورسیاسی قیادت کی مشاورت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کوئی ایسی حکمت ِعملی وضع کی جاسکے گی جوہمیں اس دلدل سے نکلنے میں مد ددے سکے گی اور ہماری مشکلات بہت کم ہوجائیں گی لیکن تاحال یہ مقصد حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ آج (بروز پیر) پارلیمینٹ کا اجلاس پھر ہورہا ہے اور اس میں حکومت کا نقطہ ٴ نظر پیش کیاجارہا ہے اور اس کی پوری تیاری کی جاچکی ہے۔ پہلے وزیراطلاعات شیری رحمن بریفنگ دیں گی اور ان کے بعد چار وزراء سوالوں کے جواب دیں گے۔ مشیر داخلہ رحمن ملک نے بتایا ہے کہ وہ خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر دفاع احمد مختار اور خزانہ کے مشیر شوکت ترین اپنی متعلقہ وزارتوں کے حوالے سے ارکان کے سوالوں کا جواب دیں گے۔ رحمان ملک نے کہا کہ قومی سلامتی کے حوالے سے بریفنگ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری، وزیر اعظم گیلانی نے وفاقی کابینہ کے مشورے سے فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اطلاعات پارلیمنٹ کو بریفنگ دیں گی جبکہ خاص سوالات کے جواب یہ وزراء دیں گے تاکہ جواب جامع ہو۔ رحمان ملک نے کہا کہ تمام متعلقہ وزارتوں نے وزیر اطلاعات شیری رحمان کو دستاویزات اور اعداد و شمار فراہم کر دیئے ہیں تاکہ وہ اپنی بریفنگ سے اراکین پارلیمنٹ کو مطمئن کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بریفنگ کئی وزارتوں کے متعلق ہو گی کیونکہ یہ جنگ بھی کئی وزارتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی دیگر وزراء کی طرح وزارت داخلہ سے متعلقہ سوالات کا جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین کے سوالوں کا جواب متعلقہ وزراء سے دلوانے کا مقصد یہ ہے کہ کسی رکن کے ذہن میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ سوالات کے حوالے سے بھی اراکین پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ مشیر داخلہ نے کہا کہ اس کا مقصد اراکین پارلیمنٹ کو زمینی حقائق سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ حکومتی پالیسی میں بہتری لانے کے لئے تجاویز دیں سکیں۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی بریفنگ کے بعد ارکان کی جانب سے عدم اطمینان کے بعد حکومت نے بریفنگ کو فوجی پہلوؤں سے دیگر معاملات تک بڑھانے کا فیصلہ کیا جبکہ کئی اراکین نے بھی مکمل بریفنگ کا مطالبہ کیا تھا۔ شیری رحمان کی آج ہونے والی بریفنگ کے بعد ارکان پارلیمنٹ کے سامنے حکومتی پالیسی کی واضح تصویر ہو گی۔ اس کے بعد تین روز تک ایوان میں اس معاملے پر بحث ہو گی۔
ہم نہیں جانتے کہ جو مشاورتی عمل چارروز کے لئے آج سے شروع ہو رہاہے اس کا انجام کیا ہوگا اور محترمہ شیری رحمن اور چار مزید وزراء صاحبان پارلیمینٹ کو مطمئن کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے۔ اس سیاق و سباق میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی مرکزی مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی کے ارکان ملک کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں دی جانے والی اِن کیمرہ بریفنگ میں تصویرکادوسرا رخ پیش کریں گے۔ پارلیمینٹ میں سوال اٹھایا جائے گا کہ امریکہ سے معاہدے کیوں کئے گئے؟ جمعیت علماء اسلام افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کی مخالف ہے تاہم اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کے حق میں ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت ختم کرکے مغربی سرحد غیرمحفوظ بنادی گئی ہے ۔ وہاں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ ہمارا طالبان سے کوئی رابطہ نہیں لیکن ہم معاملہ طاقت کی بجائے بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ خارجہ پالیسی اور ملکی صورتحال کے حوالے سے تمام امور کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس وقت ملک کو بقا اور سلامتی کا مسئلہ درپیش ہے، ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے، امن و امان کی خراب صورتحال نے ترقی کے راستے محدود کردیئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے پارلیمینٹ کی اِن کیمرہ بریفنگ پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تصویر کا دوسرا رخ ضرور پیش کریں گے اور وہی اصل بریفنگ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پرویزمشرف کی خوف میں بنائی گئی پالیسیاں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باجوڑ آپریشن پرہمارے تحفظات موجود ہیں۔ اِن کیمرہ بریفنگ میں بہت سے مسائل کو نظرانداز کیاگیا ہے۔ حکومت کو غیرملکی دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے طالبان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں خارجہ پالیسی اور قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے متعلق واضح بریفنگ دی جانی چاہئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی صورت پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے اسی لئے طالبان کو پالیمینٹ کے بند کمرہ اجلاس میں اپنا موقف پیش کرنے کاموقع دیا جانا چاہئے۔ اگر سپیکر قومی اسمبلی موقع دیں تو میں اپنی بریفنگ میں ساری صورتحال واضح کردوں گا۔اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد جامعہ حفصہ کو متبادل جگہ منتقل کیا جارہا ہے جبکہ قبائلی علاقو ں میں رمضان المبارک میں فوجی آپریشن بند نہ کرنے پر جے یو آئی (ف)کو تحفظات ہیں جنہیں پارلیمینٹ میں واضح کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی ناقابل قبول ہے لیکن اس سمیت دہشت گردی اور تمام مسائل کا حل طاقت کی بجائے سیاسی طریقے سے ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی مغربی سرحدیں گزشتہ ساٹھ سالوں سے قبائلیوں کی وجہ سے محفوظ تھیں لیکن افغانستان سے کشیدگی اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے باعث ملک کی مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ سابقہ وموجو دہ حکومتوں کی امریکہ نواز غلط پالیسیاں ہیں جنہیں فوری طورپر بدل کر ملکی مفاد میں پالیسی مرتب دینا ناگزیر ہے۔
ہمیں معلوم نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کاموقف ایوان میں پیش ہونے کے بعد اس پر حکومتی ردعمل کیسا ہوگا اور آیا دو متضاد حکمت عملیوں کے درمیان کوئی ایسی راہ نکالی جاسکے گی جو تمام فریقوں کومطمئن کرسکے۔ بظاہر ایسا ہونا آسان دکھائی نہیں دیتا کیونکہ موجودہ حکومت کے تمام یا اکثر و بیشتراکابرین مشرف دور کی پالیسی ہی کو جاری رکھنا ملک کے مفاد میں سمجھتے ہیں۔ ایسے میں اگر محترمہ شیری رحمن اور حکومتی وزراء اور مولانا فضل الرحمن کے نقطہ ٴ نظر میں کوئی مشترک قدریں تلاش کی جاسکیں اور انہیں ہی آئندہ پالیسی کی بنیاد بنایا جائے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پالیمینٹ کا بند کمرے کااجلاس بیکار اور رائیگاں نہیں گیا اور اس سے درپیش حالات کامقابلہ کرنے میں واقعی مدد ملے گی۔
مس شیری رحمن اور دیگرچاروزراء یقینا حکومت کا اہم حصہ ہیں اور وہ اس متنازع مسئلے پر حکومتی موقف موثر طریقے سے پیش کرنے کے اہل ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا فضل الرحمن کا یکسر مختلف موقف سامنے آنے کے بعد یہ پانچ حکومتی ترجمان دوسرے نقطہ ٴ نظر سے اتفاق کرنا بھی چاہیں تو ایسا کرناکس قدر ان کے بس میں ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نام نہاد پارلیمانی جمہوریت کے مروج ہونے کے دعوؤں کے باوجود ابھی تک عملاً صدارتی نظام ہی چل رہا ہے اور صدر زرداری بہت سے حوالوں سے صدر مشرف ہی کی قوت اور اختیار کے مالک ہیں اور جس طرح دوسرے تمام حکومتی معاملات میں انہیں ویٹو پاور حاصل ہے اسی طرح دہشت گردی کے خلاف مجوزہ اجلاس میں ہونے والے اتفاق ِرائے کو بھی (اگر بفرض محال ایسا کرنا ممکن ہوسکا) تووہ اس کو بھی من و عن قبول کرنا پسند کریں گے یا اس پربھی نظرثانی کا اختیار انہی کے پاس رہے گا۔ ہمارے ہاں پارلیمینٹ وجود میں آجانے کے باوجود اختیارات اور فیصلوں کی مرکزیت کا انداز صدر مشرف کے دور سا ہی ہے اس لئے اس اجلاس میں امکانی طور پر ابھرنے والے جزوی یا کلی اتفاق رائے کی کوئی قطعی حیثیت اس وقت تک طے نہیں ہوپائے گی جب تک صدرزرداری اس کی توثیق نہیں کریں گے۔ یہ امکان یا اندیشہ بھی قوی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے نقطہ ٴ نظرکو حکومتی ترجمان اجلاس کے اندر ہی مسترد کردیں اور اپنی پالیسی اوراس کی ترجیحات پر اصرارجاری رکھیں۔ ایسا ہواتو یہ ملک کے لئے نیک فال نہیں ہوگی کیونکہ حکومت کے موقف اور اس کی ترجیحات کی مخالفت صرف مولانا فضل الرحمن تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے بہت سے قومی اور محب وطن حلقے بھی اس پالیسی سے مخلصانہ اختلاف رکھتے ہیں۔ ایسے میں اس مجوزہ چار روزہ اجلاس کو حکومتی قیادت کی بصیرت اور فیصلوں کے مجاز ہونے کے حوالے سے ایک چیلنج اور ایک سوالیہ نشان سمجھا جانا چاہئے۔ بدقسمتی سے ماضی قریب میں موجودہ حکومت کے اکابرین ایسے فیصلے کرنے میں ناکام رہے ہیں جن پر ان کے مخالف نقطہ ٴ نظر رکھنے والے لوگوں کاموقف مختلف تھا۔ ایسے میں اگراس چار روزہ اجلاس کے اختتام پر قوم کو ایک متفقہ لائحہ عمل یا پالیسی کی خوشخبری سنائی جاسکے تو اسے خوش قسمتی تصورکیاجائے گا۔ ہمیں اس ساری مشق کے نتیجے اور حاصل کے بارے میں ابھی سانس روک کرفیصلوں کا انتظار کرنا چاہئے ۔اس مرحلے پراعتماد اور قطیعت سے یہ کہنا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری ایک ”قومی پالیسی“ تشکیل پاسکے گی یا نہیں۔ اب تک کے تجربات، جیسا کہ میاں نوازشریف نے بھی گلہ کیا ہے، حوصلہ افزا نہیں ہیں لیکن ہم توقع اوردعا کریں گے کہ بندکمرے کے اجلاس کی پوری مشق بیکار نہیں جائے گی اور اس سے ایک قومی پالیسی برآمد ہوسکے گی جو کم از کم اس محاذ پر ہماری مشکلات کو کم کرنے کا ذریعہ بن سکے گی۔ دیکھئے پردہٴ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔