معاشرے کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے کیلئے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے اندر تبدیلی لائیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں بھی تو تبدیل ہونا چاہئے، اپنے آپ کو تبدیل کئے بغیر تبدیلی کی خواہش محض نعرے میں ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہمارے کپتان اس کی ایک عظیم مثال بنتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ جو وہ چاہتے ہیں یا جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں ہر ذی شعور پاکستانی بھی وہی چاہتا ہے لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ پہلے خود تبدیلی کے عمل سے گزر کر ہی معاشرے کو تبدیل کرنے کی خواہش پر عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ عمل کے اندر تضادات قوم کی آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتے اور آہستہ آہستہ تبدیلی کے نعرے میں پھر وہ جان بھی باقی نہیں رہتی۔ تحریک انصاف کو اس نعرے سے بہت تقویت ملی اور یقیناً یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے طبقے نے اسے پذیرائی بخشی لیکن آہستہ آہستہ یہ ہنی مون پیریڈ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس میں خود کپتان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کپتان خود کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا لیکن پاکستان کو تبدیل کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے یہی تضاد اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مردم شناسی کا فقدان بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کپتان کی سیاسی اور ذاتی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ ان میں لوگوں کو پہچاننے کی حس ہی نہیں ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ فوری طور پر بھڑک جانے کی عادت بھی ایک ایسا عنصر ہے جو کپتان کو اس کے نصب العین اور مقاصد کے حصول میں ناکام بنائے ہوئے ہے۔ گزشتہ دنوں پشاور میں ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے اس بات کا عملی مظاہرہ کرکے بھی دکھا دیا۔ ایک صحافی نے ان سے سوال کیا تھا کہ وہ مردم شناس نہیں ہیں اپنی سیاسی زندگی میں اور ذاتی زندگی میں بھی، اس پر کپتان اپنے غصے کو قابو میں نہیں رکھ سکے اور کہا کہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوال کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ میر ے خیال میں کسی سیاسی لیڈر کی ذاتی زندگی اور اس کا احترام اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ اس کی سیاسی زندگی کا حصہ نہ ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیوی کے متعلق کوئی سوال نہیں کرتا مگر دوسری بیوی بیگم نصرت بھٹو چونکہ عملی سیاست کا حصہ تھیں اسی لئے ان کے بارے میں سوال کئے جاتے ہیں۔ کپتان صاحب آپ بھی کرکٹر کی حیثیت سے ایک سیلبرٹی ہیں اور آپ کی سابقہ اہلیہ بھی بی بی سی کی ’’ویدر گرل‘‘ اور اینکر ہونے کی وجہ سے ایک سیلبرٹی ہیں۔ گھر گرہستی سنبھالنے کی بجائے آپ نے جلسے اور جلوسوں میں اپنی سابقہ اہلیہ کو شریک کیا، انتخابی مہم وہ چلاتی رہیں، انٹرویوز میں آپ انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے رہے اور پھر یہ تو کسی اور کی شادی میں نہیں ہوا کہ کسی کی دلہن پر ایم آئی 6کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگا ہو۔ ان سب باتوں کے بعد بھی کیا آپ اسے اپنی ذاتی زندگی قرار دیں گے۔ یا تو آپ بڑے بھولے بادشاہ ہیں یا پھر آپ ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو‘‘ والے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ گزشتہ روز تو آپ کی سابقہ بیوی ریحام خان نے بھی انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں ڈرامائی انٹری دیتے ہوئے اشاروں کنایوں میں یہ کہہ دیا کہ ’’ایک چھکا مارنا آسان ہے مگر لمبی پارٹنرشپ کھیلنا مشکل‘‘۔ جناب کپتان صاحب اس بات میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ گیا کہ آپ مردم شناس نہیں ہیں۔ خلیل جبران کا کہنا تھا کہ ’’انسان کو چہرے سے نہیں دل سے پہچانا جاتا ہے‘‘۔ لیکن آپ ظاہری شکل و صورت اور ٹیپ ٹاپ سے لوگوں کو پہچانتے ہیں جو آپ کو بعد میں دھوکہ دے جاتے ہیں یا پھر آپ سے مخلص نہیں ہوتے۔ باقی ہم صحافی لوگوں کا کام یا تو سوال کرنا ہے اور پھر لکھنا۔ شاید اسی لئے جون ایلیا نے کہا تھا کہ:
جو دیکھتا ہوں وہی لکھنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
محترم کپتان صاحب آپ کو اخلاقیات پر درس دینا اچھا نہیں لگتا۔ ’’کچھ شرم اور حیا‘‘ کیا صرف صحافیوں کے اندر ہی ہونی چاہئے یا انصاف پسند سیاسی لیڈروں کو بھی ان الفاظ سے واقف ہونا چاہئے۔ بات شادی کرنے کی نہیں کہ کس نے کس عمر میں کس کے ساتھ شادی کی، بات بندھن کے قائم رہنے اور ٹوٹنے کی ہے اور بات پھر مردم شناسی کی ہے۔ یوں تو سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے 75برس کی عمر میں 7بیٹوں اور 4بیٹیوں کی موجودگی میں جوان سال خاتون سے شادی کی۔ سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ دو بیویوں کے شوہر ہیں۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر مرحوم نے دو سے زائد شادیاں کیں۔ پیرپگارا (سید مردان شاہ مرحوم) نے 75سال کی عمر میں شادی کی۔ پیپلز پارٹی کے صدر امین فہیم دو سے زائد جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی دو شادیاں کرچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری تاج حیدر نے 70سال کی عمر میں ٹی وی اینکر ناہید وصی سے شادی رچائی۔ 65سال کے سابق وفاقی وزیر میر ہزار خان بجارانی نے 2بیٹوں اور 3بیٹیوں کی موجودگی میں ایک خاتون رکن اسمبلی کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما این ڈی خان نے صوبائی وزیر نرگس این ڈی خان اور شمیم این ڈی خان کے بعد تیسری شادی کی۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود نے بھی 58سال کی عمر میں دوسری شادی کی اور سابق گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر نے تو ریکارڈ سات ،آٹھ شادیاں کیں۔ کپتان صاحب آپ کی دوسری شادی ناکام ہوگئی یقیناً ہر انسان کو ایسی صورتحال سے دکھ ہوتا ہے لیکن آپ کو اس صورتحال سے نہ صرف جلد نکلنا چاہئے بلکہ آئندہ کے فیصلے ان ناکامیوں کی روشنی میں نہ صرف دیکھ بھال کر کرنے چاہئیں بلکہ صحافیوں کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کا بھی خندہ پیشانی سے جواب دینا چاہئے، کم از کم اپنے اندر یہ تبدیلی تو آپ کو لانا پڑے گی۔ جیسے میرے ایک صحافی دوست شکیل انجم اپنے اندر لے کر آئے ہیں۔ ان دنوں وہ برطانیہ کے دورے پر ہیں بہت عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو جناب جبار مفتی نے زبان ذوق سے یوں تبصرہ کیا کہ:
اے ذوق کسی ہمدم درینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
یوں تو شکیل انجم پیپلز پارٹی اور خصوصاً محترمہ بینظیر بھٹو کے نظریات کے زبردست حامی ہیں لیکن آج کل اپنے کالم ’’اشارہ‘‘ میں عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف ان کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ موجودہ حالات میں عمران کی تبدیلی کا فلسفہ بالکل درست ہے تاہم اس کے لئے کپتان کو بھی خود کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اپنی ذات کے علاوہ پارٹی کے اندر بھی انہیں جھانکنا ہوگا اور کچھ مزید بولڈ فیصلے ان کے منتظر ہیں۔ اگر حالات کو انہوں نے پہچانا اور درست سمت میں درست فیصلے نہ کئے تو تحریک انصاف ہمیشہ کے لئے تیسرے درجے کی پارٹی بن کر رہ جائے گی جوکہ صف اول کی جماعت بننے کا حق رکھتی ہے۔ اس تبصرے پر میں تو یہ کہوں گا کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے اندر تبدیلی لائیں، خود کو تبدیل کئے بغیر تبدیلی کی خواہش محض ایک نعرے میں بدل جاتی ہے۔