• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ دنوں خود کو بے اختیار سمجھتے ہوئے تب تک کمیٹی کا اجلاس منعقد نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جب تک اسے ہائی کورٹس،سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے ججز کی تقرری میں موثر کردار نہیں سونپا جاتا۔ ارکان پارلیمنٹ کے اس اقدام سے جہاں ملک میں نیا آئینی بحران جنم لینے کا خدشہ ہے وہیں ملک کی اعلیٰ عدالتوں خصوصا ہائی کورٹس کو جہاں پہلے ہی ججز کی کمی ہے مزید مشکلات سے دوچار کرنے کا سامان بھی پیدا کر دیا ہے۔ قانون سازوں کا یہ فعل بالکل اس ضدی بچے کی طرح ہے جسے اپنی پسند کا کھلونا نہ ملے تو وہ منہ بسور کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے اپنی جس بے اختیاری کا رونا آج رویا جا رہا ہے اس پر مہرتصدیق اٹھارویں اور انیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے خود پارلیمنٹ نے ہی ثبت کی تھی۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں اعلیٰ عدلیہ میں متعدد ججزکی تقرری اور ترقی کی سفارشات دینے کے بعد پارلیمانی کمیٹی کو اب کیوں ادراک ہوا کہ اس کا کردار محض ایک ربڑ اسٹیمپ کا ہے۔اگر اس دلیل کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پارلیمانی کمیٹی کا کام جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر محض ٹھپہ لگانا ہی ہے تو آئین میں ترمیم کے ذریعے اس کردار میں تبدیلی کا اختیار بھی تو انہی کے پاس ہے،ایسی صورت میں کمیٹی کا اجلاس منعقد نہ کرنے جیسا غیر منطقی احتجاج سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ احتجاج کس کے خلاف کیا جا رہا ہے اگر تو اس کے ذریعے ججز تقرری کے ایک آئینی عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر اعلیٰ عدلیہ کو پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تو بھی اس کا خمیازہ انصاف کے متلاشی عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا جو ججز کی کمی اور مقدمات کی بھرمار کے باعث سالہا سال سےعدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کیلئے اپنے کردار کو موثر اور با اختیار بنانے کیلئے وزیر اعظم کو سفارشات بھی پیش کی ہیں جن کی بنیاد پر 22 ویں آئینی ترمیم لانے پر زور دیا گیا ہے۔ان سفارشات کا ذکر کرنے سے پہلے اس طریقہ کار کے بنیادی خدوخال پر روشنی ڈالتا ہوں جو اٹھارویں اور انیسویں آئینی ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے وضع کیا تھا۔ ان آئینی ترامیم کو صرف دو تہائی اکثریت سے ہی نہیں بلکہ متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔ ان میں بیان کیا گیا ہے کہ ہائی کورٹس،سپریم کورٹ اورفیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تقرری ایک جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہو گی۔ سپریم کورٹ کے ججزکی تقرری کیلئے اس جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان ہونگے۔ عدالت عظمیٰ کے دوسینئر جج رکن ہوں گے جن کی مشاورت سے چیف جسٹس ایک اور رکن کو نامزد کریں گے جو سابق چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا جج رہ چکا ہو۔وفاقی وزیر قانون وانصاف اور اٹارنی جنرل بھی جوڈیشل کمیشن کے ارکان میں شامل ہوں گے۔ پاکستان بار کونسل کا نامزد سپریم کورٹ کا سینئر وکیل بھی رکن ہو گا۔اسی طرح ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کیلئے کمیشن میں متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس،سب سے سینئرجج،صوبائی وزیر قانون و انصاف، متعلقہ بار کونسل کا نامزد پندرہ سالہ تجربے کا حامل وکیل شامل ہوگا۔اسی طرز پر فیڈرل شریعت کورٹ کے ججز کی تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کے ڈھانچے کی تشکیل کی گئی ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی پہلی بار تشکیل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔جوڈیشل کمیشن مجموعی ارکان کی اکثریت سے جج کی خالی آسامی پر ایک شخص کی نامزدگی کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتا ہے۔آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی میں چار ارکان قومی اسمبلی اور چار سینیٹ سے شامل ہیں جو چودہ دن میں جوڈیشل کمیشن کی نامزدگی کی تین چوتھائی اکثریت سے توثیق کرتی ہے۔مقررہ وقت میں توثیق نہ کرنے کی صورت میں نامزدگی حتمی تصور ہوتی ہے۔ تقرری کیلئے کسی جج کی نامزدگی سے اختلاف کی صورت میں پارلیمانی کمیٹی وزیر اعظم کے ذریعے وجوہات سے کمیشن کو آگاہ کرتی ہے تاہم حتمی فیصلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس آئینی طریقہ کار سے پارلیمانی کمیٹی کو اختلاف یہ ہے کہ اس کا کام صرف جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کی توثیق کرنا ہے اور اگر اس نے ان سفارشات کے خلاف فیصلے کئے ہیں تو اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے انہیں تسلیم نہیں کیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی نے جوسفارشات وزیر اعظم کو پیش کی ہیں ان میں تجویز کیا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں ریٹائرڈ جج کی جگہ حاضر سروس جج کو شامل کیا جائے۔صوبے کے چیف جسٹس کیلئے سینئر ترین جج ہونے کی شرط تجویز کی گئی ہے جبکہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر چودہ کی بجائے تیس دن کا وقت طلب کیا گیا ہے۔کمیٹی نے امیدوار کی اہلیت اور قابلیت کے ساتھ اس کی مالی حیثیت کی جانچ پڑتال کا اختیار بھی مانگا ہے۔سب سے اہم مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ ججزکی تقرری کیلئے حتمی اختیار پارلیمانی کمیٹی کو دیا جائے جسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہ کیا جا سکے۔ان تمام اختیارات کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرے لیکن یہ انتہائی غور طلب بات ہے کہ ایسی کسی بھی آئینی ترمیم کو کیا وہ عدالت عظمیٰ قبول کر لے گی جس کے فل کورٹ بنچ نے رواں سال اگست میں ہی اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کے خلاف دائر پٹیشنز پر دئیے گئے فیصلے میں عدلیہ کی آزادی کو ججز کی تقرری سے مشروط کیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پرکہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اسے عدالتی معاملات پر مکمل اختیار ہو جس میں ججز کی تقرری بھی شامل ہے۔فل کورٹ بنچ نے پارلیمانی کمیٹی کے موثر کردار کو عدالتی عمل میں مداخلت سے تعبیر کیا تھا اور فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جو ڈیشل کمیشن پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا پابندنہیں ہے۔آخر میں اسی فل کورٹ بنچ میں شامل جسٹس شیخ عظمت سعید کے ان ریمارکس کا حوالہ دیتا ہوں جنہوں نے ان پٹیشنز کی سماعت کے دوران ایک موقع پر دئیے تھے۔ جسٹس صاحب نے استفسار کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری میں موثر کردار کیوں چاہتی ہیں،کیا سیاسی جماعتیں اپنے اندر جوڈیشل ونگز بنانا چاہتی ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ کو تحصیلدار بھرتی کرنے کا اختیار نہیں ہے تو وہ کس طرح اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کا اختیار مانگ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے اور عدالت عظمیٰ کے ججز کے اس طرح کے ریمارکس کی روشنی میں وفاقی حکومت کو کسی بھی ایسی مہم جوئی سے باز رہنا چاہئے جو پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان محاذآرائی کا موجب بنے۔وزیر اعظم صاحب کو پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر آئینی ترمیم لانے کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ان کرداروں کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں بھی بخوبی ادراک ہونا چاہئے جنہوں نے گزشتہ سال دہری شہریت رکھنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف تنقیدی مہم چلائی تھی بلکہ سینیٹ سے ایک قرارداد بھی منظور کرائی تھی۔
تازہ ترین