’’کس طرح سے دو چار ملکوں کو پوری دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا جا سکتا ہے ۔ شام ، لیبیا، عراق میں جو کچھ ہوا ، فلسطین ، اراکان ، افغانستان ، کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے ۔ شام میں جدید ترین اسلحہ استعمال ہو رہا ہے ۔ مسلمانوں کا ورثہ لوٹا جا رہا ہے ۔ ہم خاموش نہیں رہ سکتے ۔ ہمیں بولنا ہے ۔
یہ الفاظ تھے ترکی کےدور اندیش صدر رجب طیب اردگان کے۔ جو استنبول میں ایشیاء اور بحر الکاہل کے مسلمان مذہبی رہنمائوں کی پہلی کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس کانفرنس کا اہتمام ترکی کی وزارت مذہبی امورنے کیا تھا ۔ کانفرنس میں 37ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ کانفرنس چار روز تک جاری رہی ۔ پاکستان سے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف سمیت دس رکنی وفد کو دعوت دی گئی تھی ۔ وزیر مذہبی امور منیٰ حادثے کی مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے ۔ تاہم اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی ، مفتی اعظم پاکستان رفیع عثمانی ، مفتی تقی عثمانی ، پاکستان مدرسہ بورڈ کے سر براہ ڈاکٹر عامر طاسین ، ڈاکٹر محمد الیاس و دیگر نے کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی نائب وزیر اعظم محمد نعمان تھے ۔ افتتاحی کلمات کانفرنس کے میزبان اور وزیر مذہبی امور ڈاکٹر مہمت گورمیز نے ادا کئے ۔ گورمیز کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد اس بھائی چارے کو دوبارہ بحال کرنا ہے جس کو ہم ایک عرصے سے نظر انداز کر رہے تھے ۔ ہم یہاں پر علم کے اشتراک کیلئے جمع ہوئے ہیں ۔ استنبول جو خلافتِ عثمانیہ کا مرکز تھا جہاں پر سالہا سال دنیا کے ایک بڑے حصے سے رابطوں کا مرکز تھا اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں کیوں کم جانتے ہیں جب کہ ہماری مشترکہ تاریخ کے خطبے آج بھی تھائی لینڈ میں جاری ہیں ۔ ہم کس طرح بھول سکتے ہیں کہ محمد علی جناح نے ہماری مدد کیلئے کانفرنسز منعقد کیں ۔ ہند و پاک کے مسلمانوں نے خلافت کی مدد کیلئے تحریک چلائی ، دارالعلوم دیوبند نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ ڈاکٹر مہمت گورمیز کا کہنا تھا کہ ’’مسلمانوں کی دو تہائی اکثریت ایشیاء اور بحر الکاہل کے خطے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس لئے ہم نے اس علاقے کا انتخاب کیا ۔ ہم کسی پر اپنی رائے مسلط نہیں کرنا چاہتے ۔ ہم اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ تعاون کے مواقع تلاش کریں ‘‘۔ پاکستان کے وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا پیغام اسلامک یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد الیاس (جو عربی زبان کے ماہر ہیں ) نے عربی زبان میں پڑھ کر سنایا۔ افتتاحی سیشن کا یہ دوسرا خطاب تھا جس کی بھرپور انداز میں پذیرائی کی گئی۔استنبول کو ہم ہمیشہ سے خلافت کے مرکز کے طور پر جانتے ہیں ۔ پاکستان میں جب بھی کوئی حادثہ ہوا ، کوئی آفت آئی ترکوں نے بھرپور ساتھ دیا ۔ 2005کے زلزلے میں جس طرح ترک حکومت اور اداروں نے کام کیا وہ آج بھی ہمارے ذہنوں پر نقش ہے ۔شام کے مسلمانوں کا جس طرح آپ نے ساتھ دیا ، پوری امت کا قرض چکایا۔ پاکستانی عوام کا ترکی کیساتھ ایک مضبوط تعلق ہے ۔ خلافت عثمانیہ کی بحالی کیلئے چلائی جانے والی تحریک ِ خلافت ہمارا فخرہے ۔ وحدت ، وحدانیت اور اتحاد امت کی ضرورت ہے ۔ تمام تر فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر ہمیں اپنی منزل کا تعین کرنا ہے ۔ ایشیا پیسیفک کانفرنس کی طرز پر مسلمانوں کی مستقل کونسل قائم ہونی چاہئے ‘‘۔ افتتاحی سیشن کا یہ وہ واحد پیغام تھا جس کے اختتام پر ترکی کے نائب وزیر اعظم جناب محمد نعمان نے کھڑے ہو کر اس کا خیر مقدم کیا۔
افتتاحی سیشن کااختتامی اور نہایت پر مغز خطاب نائب وزیر اعظم ترکی کا تھا ۔ اگرچہ ہمارے ساتھ زبان کا مسئلہ موجود تھا۔لیکن ترجمہ کی رواں سہولت موجود تھی ۔
جناب نعمان نے کہا کہ میں آپ سب کو خلافت عثمانیہ کے دارالحکومت میں دیکھ کر خوش ہوں ۔ آپ یہاں سے اہم فیصلے کر کے اٹھیں ۔ اشتراکِ عمل کے طریقے وضع کریں ۔ علوم و فنون کے تبادلے ، طباعت و اشاعت ، تعاون کی راہوں کا جائزہ لیں ۔ ثمر قند ، بخارا آج تہذیب کا مرکز نہیں رہے۔ دمشق کو بھی دھندلا دیا گیا ہے ۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا ۔ تشدد اور جنگوں نے اسلامی تہذیب کو تباہ کیا ہے ۔ اسلام امن کا مذہب ہے ۔ اسلام کے پھیلائو میں محبت و اخوت کا اہم کردار ہے ۔ ترکی آپ کا بھائی ہے آپ کا دوسرا گھر ہے ۔ ہم اپنے بھائیوں کیلئے شام ، اراکان ، عراق ، فلسطین سمیت ہر جگہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے ۔ اس کانفرنس میں ہندوستان سے مولانا اسعد مدنی مرحوم کے صاحبزادے مولانا محمود مدنی بھی شریک تھے ۔ مولانا محمود مدنی جاتے ہوئے دو دن پاکستان میں بھی رُکے اور مولانا فضل الرحمٰن کی دعوت پر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں مولانا مفتی محمود کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ ان کے علاوہ بھارت سے کچھوچھ شریف کے سجادہ نشین سید محمد اشرف ، جماعت اسلامی کے نائب امیر عارف علی تھانیسری ، محمد امین عثمانی ، بنگلہ دیش سے وزیر مذہبی امور مطیع الرحمٰن ، ڈاکٹر خضر حیات خان ، ملائشیاء سے مذہبی امور کے مشیر ڈاکٹر عبد اللہ محمد زین ، اسلامی یونیورسٹی کے ڈپٹی ریکٹر ڈاکٹر عبد العزیز کے علاوہ آسٹریلیا، برونائی ، تیمور ، انڈونیشیا، چین ، فجی ، فلپائن ، گھنی، ہانگ کانگ ، جاپان ، سمیت37ممالک سے ڈیڑھ سو سے زائد اسلامی رہنمائوں ، اسکالروں اور دانشوروں نے شرکت کی ۔
چار روز تک جاری رہنے والی کانفرنس کے آٹھ مختلف سیشنز میں علاقائی سطح پر مسلمانوں کو درپیش چیلنجز ، حل ، تجاویز ، امکانات ، مسلمانوں کو بطور اقلیت مسائل اور اسلامی دنیا کا مستقبل سمیت بہت سارے موضوعات پر مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے تجزیات پیش کئے ۔کانفرنس کے دوران مختلف اسلامی ممالک کے رہنمائوں کو آپسی ملاقاتوں کا بھی بھرپور موقع ملا ۔ افغانستان کا وفد کچھ کھنچا کھنچا سا رہا ۔ تاہم باقی ممالک کے لوگوں کا خیر مقدمی انداز تھا۔ کانفرنس کے آخری روز صبح کی نماز مسجد حضرت ابو ایوب انصاری ؓ میں ادا کی گئی ۔ جمعہ کی نماز تاریخی سلطان احمد مسجد میں پورے وفد نے ادا کی اور خوبصورتی یہ تھی کہ خطبہ جمعہ ترکی کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر مہمت گورمیز نے دیا اور امامت بھی کرائی۔ یہاں ہم پر یہ خوشگوار عقدہ کھلا کہ ڈاکٹر مہمت گورمیز نہایت خوش الحان قاری بھی ہیں ۔
جمعہ کے فوراً بعد کانفرنس ہال میں واپسی ہوئی۔کانفرنس کے اختتامی سیشن میں میزبان وزیر نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا ۔ اعلامئے کے اہم نکات میں انقرہ میں ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کی گئی اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے مشترکہ جدو جہد کی ضرورت پر زور دیا گیا مسلمان دنیا اس وقت بڑے پیمانے پر جس طرح دہشت گردی ، جنگوں اور تنازعات کا شکار ہے اس سے نمٹنے کیلئے از سر نو مسلمان ممالک کو سوچنے سمجھنے کیلئے آپس میں اعتماد کی فضاء بحال کرنا ہو گی ۔فلسطین جہاں پر یروشلم اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی بر بریت حد سے بڑھ رہی ہے ۔ اس کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے ۔ اتحاد و اتفاق کی راہیں تلاش کی جائیں ۔ اختلاف کو زحمت کے بجائے رحمت بنانے کی پالیسی اپنائی جائے ۔ فرقہ واریت نے بری طرح مسلمانوں کو اپنے پنجے میں جکڑا ہوا ہے اس سے نجات کیلئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں ۔
ایشیاء اور بحر الکاہل کے مسلمانوں کو آپسی تعاون کیلئے تاریخی رشتوں اور تعلقات کو از سر نو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترکی کی وزارت مذہبی امور ان رشتوں اور ورثوں کو جوڑنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی ۔ مسلمان جہاں پر اقلیت کے طور پر رہتے ہیں ان کے مسائل کے حل کیلئے ’’کونسل آف ورلڈ مسلم منیارٹی‘‘ کی تشکیل کی جائےجس کی تجویز پہلی لاطینی امریکہ کانفرنس میں پیش کی گئی تھی ۔کانفرنس کا اختتام ترکی کے صدر کے نہایت پر مغز خطاب پر ہوا۔ طیب اردگان کی تقریر کا ہر لفظ دل میں سرایت کر رہا تھا ’’مسلمان ہر جگہ مصیبت کا شکار ہیں ، ہمارے ارد گرد افغانستان، عراق ، لیبیا، اراکان میں کیا ہوا ، شام میں کیا ہو رہا ہے ، اغیار کی سازشوں نے مسلمانوں کا لہو ارزاں کر دیا ہے ، مسلمانوں کا ورثہ لوٹا جا رہا ہے ۔ مسلمان کہلانے والوں پر ہی اتنا ظلم کیوں ۔اپنے ہی بھائیوں کو مارا جا رہا ہے ۔ شامی بھائیوں کا ساتھ دینے پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ ہمارا مذہب ہمیں احترام کا سبق دیتا ہے ۔ باہمی تنازعات اور فرقہ ورانہ تعصبات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے ۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی بجائے مذہب کی تعلیم دینی ہے ۔ ہم آ ہنگی کو فروغ دینا ہے ۔ پوری دنیا کو امن کی دعوت دینی ہے ۔ اسلام اپنا سفر تیزی سے طے کر رہا ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ‘‘۔