• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہ ان کے مرشد شاہ عنایت، ملکہ ترنم نورجہاں اور سلطان موسیقی بڑے غلام علی خاں کے قصور کو حکومت پنجاب نے گھریلو تشدد اور تضادات ، صنفی اختلافات اور جنسی طور پر ناجائز امتیازات سے یکسر آزاد ضلع قرار دینے اور پھر اس معاشرتی ضرورت کو ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے اور بارہ نومبر کو اس فیصلے کی ایک بڑے جلسہ عام میں تقریب رونمائی کے لئے خواتین کے امور کی صوبائی وزیر اور پاکستان میں آسٹریلیا کی سفیر مسز مارگیٹ اور برطانیہ کی تنظیم ’’آکس فام‘‘کے کنٹری منیجر عارف جبار خاں اور مقامی حکام کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن کا رپوریشن کے لئے یادگار ڈرامے لکھنے والی ادیبہ حسینہ معین اور مجھے بطور گواہ مدعو فرمایا گیا۔
اس موقع کی مناسبت سے یا دآتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور روا رکھے گئے امتیازی سلوک کے حوالے سے پے در پے میرے چار پانچ کالم پڑھنے کے بعد طاہرہ مظہرعلی خان مرحومہ نے ایک تقریب میں مجھے’’اعزازی خاتون‘‘کے خطاب سے نوازا تو میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے درخواست کی کہ یہ اعزاز عنایت فرمانے کے بعد مجھ سے خواتین جیسی دیگر خدمات سرانجام دینے کی توقع نہ رکھی جائے ۔ بچے پیدا کرنے کے مراحل سے گزرنا میرے لئے مشکل ہوگا اور کھانا پکاتے وقت بھی نمک مرچ کاتوازن قائم رکھنا اور روٹی کی گولائی کا خیال رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ طاہرہ مظہر علی خاں نے فرمایا کہ جیسے اعزازی ڈاکٹر سے مریضوں کا علاج نہیں کرایا جاتا ویسے ہی اعزازی خاتون کو بھی بچوں کی پیدائش کے مراحل سے گزرنا نہیں پڑے گا۔
قصور کی تقریب میں جہاں حسینہ معین صاحبہ نے افسوس ظاہر کیا کہ ان دنوں ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں خواتین کرداروں کے منفی پہلوئوں کی بھرمار ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی خواتین کے اس اخلاقی قتل کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا جاتا۔ کوئی اعتراض نہیں ہوتا، میری یہ تجویز تھی کہ گھریلو تشدد اور تضادات کو ختم کرنے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے وسائل فراہم کئے جائیں ،ان کے لئے کمائی کے موقع فراہم کئے جائیں، انہیں مالی محتاجی سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے، ملکی قوانین میں موجود سہولتوں کی فراہمی بھی لازمی بنائی جائے۔
معاشرے میں ایسے دل خراش مناظر دیکھنے کو نہیں ملنے چائیں کہ لڑکی اپنے کالج یا یونیورسٹی کے کنونشن ہال سے ایم بی بی ایس یا ایل ایل بی کی ڈگری لے کر باہر آئے تو وہاں کوئی پٹواری یا ہیڈ کانسٹیبل ٹائپ دولہا کے لباس میں ڈولی کے پاس موجودہوتا ہے۔ دلہن کی ڈگریاں فریم کرکے لٹکا دی جائیں اور ڈگریاں حاصل کرنے و الی برتن مانجھنے ،کپڑے دھونے یا روٹی کی گولائی کا خیال رکھنے میں مصروف ہوجائے ،بہت جلد ملک اور معاشرے میں ایسے حالات پیدا کئے جاسکتے ہیں کہ میڈیکل اور قانون کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے والوں اور کرنےوالیوں سے بانڈز لکھوانے لازمی ہوجائیں کہ وہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد قومی سطح پر میڈیکل اور قانون کی لازمی خدمات اور سروسز بھی ادا کریں گے، ورنہ تعلیم پر خرچ ہونے والے قومی سرمائے کی واپسی کے ذمہ دار قرار پائیں گے۔
یہ کوئی فخر کی بات نہیں شرمندگی کی بات ہے کہ لاہور جیسے شہر میں صرف دس فیصد ایسی پڑھی لکھی خواتین ہوں گی جو سروس بھی کرتی ہوں گی باقی نوے فیصد تعلیم یافتہ خواتین محض گھریلو اور خانگی خدمات اور فرائض ادا کررہی ہوں گی، چنانچہ یہ صرف شہر کے لوگ ہی نہیں ہیں کہ جو ظالم ہیں یہ ہم بھی ہیں جو مرنے کے شوق میں مبتلا ہیں۔ اپنی ضرورت کے لئے جدوجہد کرنے کی بجائے برداشت اوڑھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ ملک کی آدھی آبادی قومی تعمیراتی پروگراموں سے فارغ اور لاتعلق بنادی جاتی ہے۔ یہ گھریلو تشدد سے بھی زیادہ تکلیف دہ تشدد ہے۔
تازہ ترین