قارئین جانتے ہیں کہ میرے اظہار اور دلچسپی کے موضوعات بہت سے ہیں اور ان میں ورائٹی اور تنوع پایا جاتا ہے۔ لیکن میری خصوصی دلچسپی اور قلبی میلان کے موضوعات تین ہیں۔ اوّل پاکستانیات، جس میں تحریک پاکستان، اقبال، قائد اعظم، پاکستان کا نظریاتی ارتقاء، سیاست، آئین وغیرہ شامل ہیں۔ دوم روحانیت جس کا مرکز انسان کا باطن یا من کی دنیا ہے۔ جس طرح آپ کی نگاہوں کے سامنے ایک دنیا آباد ہے جس میں ہم رہتے، دھوپ چھائوں، خوشی اور غم سہتے ہیں اسی طرح ایک جہان ہمارے قلب اور باطن میں بھی آباد ہے لیکن ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے یا بہت کم دیتے ہیں کیونکہ من کی دنیا میں جھانکنے اور دیکھنے کے لئے باطن کی آنکھ کھولنی پڑتی ہے اور باطن کی آنکھ ذکر الٰہی، عبادت اور مجاہدات کا یا پھر کسی صاحب نگاہ کا عطیہ ہوتی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ بقول اقبال اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی .....جب تک باطن کی نگاہ نہ کھلے اور اس نگاہ کے راستے سے من کے سمندر میں ڈوبا نہ جائے، حقیقی زندگی کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ بھی چونکہ میری دلچسپی کا موضوع ہے اس لئے کبھی کبھی اس پر بھی خودبخود لکھا جاتا ہے۔ آسانی کے لئے لوگ اسے روحانیت کا نام دے لیتے ہیں۔ میری خاص توجہ کا تیسرا موضوع زندگی اور زندگی کے مختلف پہلو بلکہ زندگی کے مختلف انداز اور رنگ ہیں جن میں انسانی رشتے، معاشرتی اقدار، انسانی رویے اور زندگی کے تجربات و مشاہدات شامل ہیں۔ میرا آپ سے یہ بھی معاہدہ ہے کہ کبھی کبھار زیر مطالعہ کتاب سے عام قارئین کی دلچسپی کے لئے جو انفارمیشن ملے اُسے آپ سے شیئر کروں گا تاکہ قارئین کے جنرل نالج میں اضافہ ہو۔ مجھے فلسفہ پڑھنے کا شوق ہے لیکن یہ ایک مشکل زمین ہے اس لئے اسے شیئر کرنا بھی مشکل کام ہے۔ دلچسپی کے باوجود حالات حاضرہ اور روزمرہ کی سیاست پر کم لکھتا ہوں، بس کبھی کبھار صرف محض ذائقہ بدلنے کے لئے کیونکہ اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے علاوہ پچاس سے زیادہ ٹی وی چینلز صبح سے رات تک سیاسی تجزیات کے سمندر بہاتے ہیں جس سے قارئین کی تشنگی کے پیالے بھر جاتے ہیں اور ان میں مزید قطرے سمانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ آج آپ کی خدمت میں دو اقتباسات پیش کروں گا۔ کبھی کبھی مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ قائد اعظم نے ٹوپی کب سے پہننا شروع کی؟ اس ضمن میں سیّد محمود خاور کی کتاب ’’نواب محمد اسماعیل خان‘‘ سے ایک حوالہ پیش خدمت ہے:
’’1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے پہلے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کا 25واں سالانہ عظیم الشان اجلاس 15تا 17اکتوبر لکھنؤ میں منعقد ہوا۔ راجہ صاحب محمود آباد انتظامات کے انچارج تھے۔ بڑے پنڈال کو دلکش انداز میں سجایا گیا تھا جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگ جمع تھے۔ جناح صاحب محمود آباد ہائوس قیصر باغ میں مقیم تھے۔ پہلے روز کے جلسہ عام سے ایک گھنٹہ قبل راجہ صاحب، چوہدری خلیق الزماں، نواب محمد اسماعیل خان اور جناح صاحب اس دن پروگرام پر نظرثانی کی غرض سے جمع تھے۔ نواب صاحب حسب ِ معمول بے عیب لباس میں ملبوس سیاہ سموری ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ جناح صاحب اس ٹوپی کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ’’کیا وہ اسے تھوڑی دیر کے لئے دے سکتے ہیں۔‘‘
نواب محمد اسماعیل خان نے اپنی روایتی خوشی اخلاقی سے مسکراتے ہوئے ٹوپی جناح صاحب کو دے دی اور ان سے پہننے کی درخواست کی، صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ ان پر یہ کیسی لگتی ہے۔ جناح صاحب نے اسے پہن لیا اور انہوں نے پہننے کے بعد ہماری جانب دیکھا تو نواب صاحب نے ٹوپی کے ٹیڑھے زاویے کو درست کر دیا۔ ہم لوگ اس کی تعریف کرنے لگے تو وہ اٹھ کر ساتھ والی خواب گاہ میں چلے گئے اور وہاں ایک قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہماری رائے کا محاسبہ کرنے لگے۔ دو منٹ بعد برآمدے میں واپس آئے۔ ہم میں سے کسی نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ ٹوپی پہنے رہیں اور اسی طرح اجلاس میں جائیں۔ انہوں نے تجویز مان لی۔ مجھے وہ جلسہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ مجھے لوگوں کے مسکراتے چہرے اب تک نظر آتے ہیں۔ زور و شور کی تالیاں اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے جناح صاحب کے پنڈال میں داخل ہوتے ہی گونجنے لگے۔ تمام مجمع سرگوشی میں پہلے پھر باآواز بلند اس ٹوپی کی اور اس شیروانی کی جسے جناح صاحب پہلی بار کسی ایسی تقریب میں زیب تن کئے ہوئے تھے تحسین و آفرین کرنے لگے گویا یہ نعرے ٹوپی کے جناح صاحب کو سجنے کا حقیقی اعتراف تھے۔‘‘
لکھنؤ کا اجلاس ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ شہر کے نوجوانوں اور بہت سے معمر حضرات نے یہ ٹوپی پہننا شروع کر دی تھی جو قائد اعظم کی بدولت راتوں رات مقبول ہو گئی تھی اور شہر کے کلاہ سازوں (ٹوپی /پگڑی بنانے والے) نے بھی راتوں رات فائدہ اٹھاتے ہوئے کمال کر دکھایا اور ہزاروں کی تعداد میں اصلی قراقلی یا نقلی کھال کی ٹوپیاں بنانا شروع کر دیں۔ کنیا کماری سے صوبہ سرحد تک یہ ٹوپی ’’جناح کیپ‘‘ کے نام سے مقبول ہو گئی تھی اور آج بھی ہے۔ قیصر نقوی نامی شخص نے یہ ٹوپی تیار کی تھی۔
کالم کا حصہ دوم ان قارئین کے لئے ہے جو روحانیت میں دلچسپ رکھتے ہیں۔ ان دنوں میری نظر سے ڈاکٹر حافظ محمد اشرف کی ضخیم کتاب ’’اسلام اور بنیادی انسانی حقوق‘‘ گزری ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کی تحقیقی اور حوالہ جاتی کتاب ہے جسے پنجاب یونیورسٹی پریس نے چھاپا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے طویل مقدمے میں تحقیق کر کے بعض حقائق لکھے ہیں جن سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہو گا۔ قرآن حکیم میں نفس کا لفظ اور ذکر تقریباً تین سو (300) بار مختلف آیات میں آیا ہے۔ بصیرت 148، قلب 132، عقل 49، النظر 130بار آیا ہے۔ قرآن مجید میں نفس انسانی کی تقریباً 1800(اٹھارہ سو) مثبت اور منفی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ مثبت خصوصیات میں صبر، شکر، انکسار، ایثار، قناعت، صدق، حلم، عدل، حکمت، جہد وغیرہ جبکہ منفی خصوصیات میں کفر، منافقت، ظلم، بہتان، بغض، حسد، حرص، کذب، غیظ اور جہل وغیرہ شامل ہیں۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ فقر اور روحانیت میں باطن کو نفس کی منفی خصوصیات سے پاک کرنے پر کیوں اتنا زور دیا گیا ہے۔ نفس کی منفی خصوصیات میں فقراء تکبر کو بھی شامل کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان کا اندر اور باطن ان منفی اور سفلی جذبات سے پاک نہ ہو، باطن اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نور سے منور نہیں ہو سکتا۔
ڈاکٹر صاحب نے میرے پسندیدہ موضوع روح پر بھی روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے کہ قرآن مجید میں بیس (20) آیات میں روح کا ذکر ہوا ہے۔ انسانوں کو اس کے بارے میں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ صرف اس قدر صراحت کی گئی ہے کہ روح ’’امر ربی‘‘ یعنی میرے رب کے حکم سے ہے۔ انسان میں پھونکی جانے والی خدائی روح جو انسان کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے اس کا ذکر صرف تین آیات میں ہے۔ قرآن مجید میں روح کی تربیت، طہارت اور تزکیے کا ذکر نہیں ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ چونکہ انسان میں پھونکی جانے والی روح خدائی ہے اسی لئے ابدی حیثیت رکھتی ہے اور اتنی اعلیٰ و ارفع پاکیزہ شے کی طہارت کا سوال ہی نہیں، تزکیہ تو نفس کا کیا جاتا ہے اور یہی بقول ڈاکٹر اشرف صاحب قرآن مجید کا مقصود ہے۔ جب روح کو جسد انسانی سے نکال لیا جاتا ہے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے مگر روح عالم ارواح میں قائم و دائم رہتی ہے۔ معتزلی مکتبہ فکر کے معروف دانشور النظام کے مطابق روح ایک لطیف جسم ہے جو روز اول سے کثیف جسم میں اس طرح چھپا ہوا ہے جس طرح پھول میں مہک اور دودھ میں مکھن پنہاں ہوتا ہے۔ علامہ ابن القیم کا خیال ہے کہ روح ایک جسم ہے جو مادی جسم کے برعکس ہے۔ وہ نورانی، ہلکا، زندہ اور متحرک ہے جو تمام اعضاءِ جسم میں نفوذ کر جاتا ہے۔ وہ بدن میں اس طرح چلتا ہے جیسے پانی گلاب کے پھول میں، زیتون میں تیل اور کوئلہ میں آگ‘‘…سبحان اللہ۔