• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مرزا غالب نے کہا تھا
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو پیرہن کو
اپنے نظریات اور دھڑلے کے ساتھ وفادار اور ثابت قدم رہنا ہر دور میں بڑے دل گردے کا کام رہا ہے لیکن آج کی مادی دنیا میں تو یہ وصف بالکل ہی نا پید ہو چکا ہے۔ جہاں ہر بدلتے موسم کے ساتھ بڑے بڑے دانشور بھی کپڑوں کی طرح اپنی وفاداریاں اور نظریات تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ایسے دور میں جہانگیر بدر جیسے سیاسی کارکن خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی نوجوانی سے لے کر زندگی کی آخری سانسوں تک اپنی پارٹی اور اپنے نظریات کے ساتھ وفاداری نبھائی اور ہر گرم و سرد میں ثابت قدم رہے۔ جہانگیر بدر نے بھٹو خاندان کی تین نسلوں کے ساتھ کام کیا۔ وہ پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے اور وفاقی وزیر بھی بنے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے بھی بے شمار قربانیاں دیں ، کوڑے کھائے اور قیدیں بھی کاٹیں۔ لیکن اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ میں اس وقت راولپنڈی میڈیکل کالج کا طالب علم تھا جب پاکستان کی تاریخ کا ظالم ترین مارشل لاء نافذ ہوا جس میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور جمہوریت کے متوالوں پر ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی ۔ ایسا ظلم نہ اس سے پہلے مارشل لائوں میں ہوا نہ بعد میں۔ اسی دوران جہانگیر بدر سمیت بے شمار سیاسی کارکنوں کو قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔ جہانگیر بدر تو اس وقت عملی سیاست میں پیپلز پارٹی کے ذریعے فعال تھے اس لئے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن مجھ جیسے غیر سیاسی طالب علم کی بھی ٹانگیں اور بازو توڑ کر پابند ِ سلاسل کر دیا گیا۔ جس کا بظاہرکسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔میرا جرم صرف اتنا تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد میں اصولی طور پر آمریت کو پاکستان کے لئے زہرِ قاتل سمجھتا تھا ۔ جس کے اظہار کے طور پر میں نے ’’میں باغی ہوں‘‘ نظم لکھی تھی۔ جو اس دورِ ستم میں مزاحمت کا روں کی نظم کے طور پر بہت مقبول ہوئی۔ میرا اور جہانگیر بد رکا آپس میں یہی رشتہ تھا کہ ہم آمریت کے مخالف اور جمہوریت کے پرستار تھے۔ یہی رشتہ دوستی ، محبت اور احترام کے رشتے میں ساری زندگی ہمارے درمیان موجود رہا اور مجھے اس پر فخر ہے۔
میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایم ایم عالم روڈ گلبرگ میں میری فیملی نے مجھے ایک پرائیویٹ اسپتال بنا دیا۔ جس کا نام میری والدہ کے نام پر خورشید اسپتال رکھا گیا۔ یہ 1985کاذکر ہے ضیاء الحق نے اپنے 8سالہ اقتدار کے دوران جہاں اور بہت سے قومی مفادات کے خلاف کام کئے اور پاکستان کو افغان جنگ میں امریکی مفادات کا گما شتہ بنا کر اسے آنے والی نسلوں کے لئے دہشت گردی کا ناسور بنا ڈالا وہیں جمہوریت کی بحالی کے نام پر غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ذات، برادریوں اور فرقوں میں بھی تقسیم کرنے کی ابتدا کردی اُن غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والے وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کے زمانے میں ملک میں دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ تو جہانگیر بدر اکثر میرے اسپتال میں آتے اور وہاں سیاسی میٹنگز بھی ہوتیں۔ ایک دفعہ وہ کئی دن میرے اسپتال میں بطورِ مریض بھی داخل رہے لیکن وہ مریض نہیں تھے۔ چونکہ پولیس اکثر ان کے تعاقب میں رہتی تھی اس لئے وہ سیاسی سرگرمیوں کے لئے اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے تھے اور خورشید اسپتال بھی اُن میں سے ایک تھا۔ اس دوران مجھے انہیں قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ وہ ایک انتہائی سادہ ، مخلص اور کھرے شخص تھے۔ اپنے کلچر اور زمین سے جُڑے ہوئے۔ بھٹو خاندان سے ان کی عقیدت کا اظہار اُن ٹیلیفونک گفتگو کے ذریعے بخوبی ہوتا تھا، جب وہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بات چیت کررہے ہوتے تھے۔ وہ ایک انتھک سیاسی کارکن تھے میں نے انہیں ہر وقت کارکنوں کے ہجوم میں گھرے دیکھا ۔ جو بعض اوقات ان کے کپڑے کھینچ رہے ہوتے تھے لیکن وہ اس کا بُرا نہیں مناتے تھے۔ اور اپنے مخصوص لاہوری لہجے میں ہر ایک کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ رات دیر تک لوگوں سے ملتے رہتے تھے اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ شخص آرام کس وقت کرتا ہے۔ ان کے ملنے والوں میں خواص و عوام ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ وہ بڑے بڑے سیاسی عمائدین،دانشوروں اور فنکاروں سے بھی اسی طرح ملتے تھے جس طرح ایک عام غریب کارکن سے۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنوں کو فرداََ فرداََ نام اور حسب و نسب تک کے حوالے سے جانتے تھے۔
سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کے وقت محترمہ بے نظیر بھٹو بیرونِ ملک جلا وطن تھیںاس وقت جہانگیر بدر پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر تھے۔ بی بی شہید نے جب پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو یہ جہانگیر بدر ہی تھے جنہوں نے تمام تر مخالفت اور مشکل حالات کے باوجود پیپلز پارٹی کو اس طرح متحرک کیا کہ 10اپریل 1986کو بی بی کی آمد پاکستان ہی نہیں برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا خیر مقدمی جلوس بن گئی۔ اسی جلوس کا ایک سِرا ائیر پورٹ اور دوسرا مینارِ پاکستان پر تھا جہاں بی بی کو جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ ایسی مقبولیت اور پذیرائی نہ پہلے کسی کو ملی اور نہ بعد میں ۔ ایک منتظم کی حیثیت سے یہ جہانگیر بدر کا امتحان تھا جس میں وہ پورے اترے ۔ مینارِ پاکستان میں ایک میڈیکل کیمپ بھی بنایا گیا جس کا مجھے انچارج مقرر کیا گیا۔ میرے لئے یہ جلسہ اس لئے بھی یادگار حیثیت اختیار کر گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی تقریر کے آخر میں ضیاء آمریت کو للکارتے ہوئے غیر متوقع طور پر میری نظم ’’ میں باغی ہوں‘‘ پڑھی جس سے وہ زبانِ زدِ خاص و عام ہوگئی کیونکہ اگلے دن کے اخبارات کی شہ سرخی یوں چھپی ’’ حکمرانوں ! سن لو میں باغی ہوں‘‘ اس کامیاب اور تاریخی جلسے کے بعد جہانگیر بدر نے میری ملاقات محترمہ بے نظیر بھٹو سے کرائی جو میرے لئے ایک اعزاز تھا۔ جہانگیر بدر کے ساتھ میرا ہمیشہ تعلق ایک بڑے بھائی کی طرح رہا۔ انہوں نے کئی مرتبہ مجھے پارٹی میں عہدہ لینے کےلئے اصرار کیا لیکن میری نظریاتی وابستگی ہمیشہ عہدوں سے ماورا رہی ۔ پارٹی کے بدترین دور میں بھی جہانگیر بدر کی طرح میری ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ رہیں۔ حالانکہ تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں پارٹی پر تنقید بھی کرتا رہا لیکن اس سے ہمارے تعلقات پر کوئی اثر نہ پڑا۔ آج جہانگیر بدر ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن انہوں نے تمام تر ترغیبات کے باوجود پارٹی کے ساتھ جس طرح اپنی وفاداری نبھائی اور اس پر مرتے دم تک قائم رہے وہ ہمارے پر آشوب سیاسی کلچر کے لئے ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔


.
تازہ ترین