• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ درست ہے کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں پہلی مرتبہ طرزِ حکومت کو زیربحث لا یا گیا ہے اور خراب حکمرانی کو بہتر بنانے کی تجویز دی گئی ۔ جواباً حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہر ادارے کی اپنی اپنی ذمہ داری ہے اور سینیٹ میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا عزم کیا گیا۔ یوں لگا کہ کوئی ایک ِ طرف بڑھ رہا ہے تو دوسرے جمہوریت کو بچانے کیلئے یکجا ہورہے ہیں۔ ماضی کے تجربے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے مگر اس دفعہ معاملہ قدرے مختلف ہے کہ فوج کے پاس بہت کام ہیں، وہ صرف یہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور اب نیشنل ایکشن پلان کے باقی نکات جن میں فاٹا میں ایڈمنسٹریٹو اور ترقیاتی بحالی اور آئی ڈی پیز کی واپسی پر توجہ، پنجاب میں مسلح گروپوں کو قطعاً برداشت نہ کرنا، دہشتگردوں کے سرخیلوں سے نمٹنا، کرمنل انٹیلی جنس سسٹم کی بہتری کیلئے اقدامات اور صوبوں کی CID کو مضبوط بنانا اور ملک میں کوئی متوازی مسلح فورس نہ ہو۔ یہ کام حکومت کے کرنے کے تھے۔ اس سلسلے میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے، 10نومبر 2015ء کو ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا، یہ پہلا موقع تھا کہ حکومتی کردار بھی زیربحث آیا اور ردعمل کے طور پر کہا گیا کہ دیرپا کامیابی کیلئے موثرحکومتی اقدامات ضروری ہیں۔ اُن کے مطابق حکومتی اقدامات ناکافی، اچھی طرزِ حکمرانی پر زور اور حکومت سے مزید تعاون طلب کیا گیا۔ اس طرح کی پریس ریلیز اگرچہ پریشان کن ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر نیشنل ایکشن پلان کےباقی کام حکومت کو کرنے ہیں اور ان کو کرنے میں کوتاہی ہورہی ہے، اس لئے ان کو یاد دلایا گیا ہے۔ گو ایک مکمل جمہوری طرزِ حکومت میں یہ پریس ریلیز نامناسب ہے مگر جہاں کرپشن عام ہو، لوٹ مار جاری ہو، جو ادارے لوٹ مار کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں اُن کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ سارے سوالات مرکزی و صوبائی حکومتوں سے متعلق ہیںتو اور کیا کیا جائے؟ مگر ہمیں اندازہ ہے کہ کوئی ادارہ یہ جمہوریت جیسی بھی ہے اس کو ختم کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس میں بہتری لانے کی بات کررہا ہے۔ایک سوال اسی ضمن میں یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ آرمی چیف کا دورئہ امریکہ سے پہلے یہ بیان کیوں آیا جس سے بہت سے لوگوں کو قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ یاد آگیا۔ یہ غلط سوچ ہے کیونکہ جنرل راحیل شریف کو معلوم ہے کہ امریکہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے۔
پاکستانی قوم نے بڑے سانحات کا سا منا کیا ہے جن میں لیاقت علی خاں، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کا قتل شامل ہیں ۔ پھر 1965ء اور 1971ء کی جنگیں، زلزلہ اور سیلاب جیسی آفتوں کے باوجود پاکستان مستعد اور مضبوط ہوتا رہا ہے۔ اب امریکہ کے پاس یہ آپشن ہے کہ ملک کی سلامتی کا تحفظ کرنے والی فوج اور اس کی پشت پر کھڑی ہونے والی قوم کو بذریعہ سیاسی پارٹیوں کے آمنے سامنے لائے اور اپنے مذموم مقاصد پورے کرے۔ اسلئے جنرل راحیل شریف کا دورئہ امریکہ جس پر جولائی 2015ء سے بات چیت چل رہی تھی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے ’’ضربِ عضب‘‘ کے ذریعے اپنے یہاں دہشتگردی پر بہت حد تک قابو پا لیا ہے اور کراچی آپریشن کے ذریعے پاکستانی معیشت کی بحالی کو ممکن بنا لیا ہے اور پاکستان میں یہ دہشتگرد افغانستان سے حملہ اور منصوبہ سازی کرتے ہیں، افغانستان سے راکٹ برسائے جاتے ہیں۔ یہ ضروری تھا کہ جنرل راحیل شریف امریکی فوجی حکام سے واضح طور پر بات کریں کہ ایسے علاقے سے جہاں امریکہ کا کنٹرول ہے اور حکومت اُس کے زیراثر ہے وہ وہاں سے دہشتگردی کو رکوائے ورنہ پاکستان کو یہ حق ہوگا کہ وہ افغانستان میں گھس کر دہشت گردوں کو مارے، دوسرے پاکستان نے امریکہ کے کہنے پر طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کرائے تھے مگر افغان حکومت نے ملا عمر کی موت کی خبر میڈیا میں دے کرمذاکرات معطل کرا دیئے تو ایسی صورت میں امریکہ اور افغان حکومت کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ افغانستان میںخانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں یا وہاں داعش کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تاکہ افغانستان، ایران، پاکستان، چین اور روس میں عدم استحکام ہو۔ واضح رہے کہ یہ بات تسلیم کی جارہی ہے کہ داعش مغرب کی پیداوار ہے اور امریکی دانشور اُس کو امریکہ کا سب سے مہلک ہتھیار بتاتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنی فوجیں داعش کے خلاف زمین پر نہیں اتار رہے۔ پھر یہ کہ بھارتی دہشتگردی اور اشتعال انگیزی کے بارے میں چیف آف دی آرمی اسٹاف امریکی حکومت سے دوٹوک بات کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سےبھارت کو شہہ کیوں دی جارہی ہے۔ جنرل راحیل شریف امریکہ کو کھل کر اِس کے نتائج سے آگاہ کریں گے۔ چوتھی بات جو اُن کے امریکی فوجی حکام کے درمیان ہوچکی ہوگی وہ کولیشن فنڈز کی ادائیگی کی ہے کہ امریکہ کو یہ فنڈز جاری کردینے چاہئیں اور پانچویں بات پاکستان کا دیرینہ مطالبہ ایٹمی سپلائی گروپ میں شمولیت کا ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ پاکستان اپنے آپ کو امریکہ سے ایٹمی ملک تسلیم کرانا چاہتا ہے۔ اگرچہ پاکستان ایٹمی ملک ہے اگر وہ تسلیم نہ بھی کرے تو تب بھی ہم ایٹمی ملک رہیں گے مگر وہ ہمیں اس گروپ میں شامل کرلیتا ہے تو یہ اُس کے اور ہمارے دونوں کے مفاد میں ہے۔ امریکہ نے اس کیلئے سخت شرائط رکھی ہیں کہ پاکستان ایٹمی مواد بنانا بند کرے، اپنے محدود تباہی کے ایٹمی ہتھیار بنانا بھی بند کرے، ایٹمی پروگرام کو جس مقام پر ہے وہاں پر روک دے اور اپنے میزائلوں کے حدف کی حد کو اس سے آگے نہ بڑھائے جتنی وہ حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ اس پروگرام کابھارت سے تعلق ہے، اس لئے وہ ایٹمی پروگرام نہیں روکے گا اور نہ ہی محدود پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانا چھوڑے گا کہ یہ اُس کے دفاع کیلئے ضروری ہیں۔ اس کا امریکہ کے خلاف کوئی پروگرام نہیں ہے، میزائل کی رینج امریکہ تک نہ بنانے پر راضی ہوسکتے ہیں اور ایسا معاہدہ جو اس نے بھارت سے کیا ویسے ہی معاہدے کیلئے ہم اب دستیاب ہیں جبکہ 2006ء میں اس پر بھی راضی نہیں تھے مگر ہمارا ایٹمی پروگرام اب بہت ترقی یافتہ ہے اور بھارت کے مقابلے میں کافی جدید ہے۔
دونوں ملکوں نے اپنے اپنے کارڈز سامنے رکھ دیئے ہیں۔ اس پر سخت گفتگو ہوگی۔ البتہ جنرل راحیل شریف نے اپنے امریکہ سے پہلے واضح طور پر اعلان کردیا تھا کہ ایٹمی پروگرام کی حفاظت مقدس فریضہ ہے جو وہ انجام دیں گے۔ اس طرح پاکستان کی مضبوطی کا تصور اجاگر ہورہا ہے۔ پاکستان نے اپنے آپ کو منوانے کیلئے جو حکمت عملی وضع کی تھی اس کے تحت اس نے تیزی سے اپنے محدود تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار بنائے جس نے اس کوامریکہ اور روس کے بعد تیسرے نمبر پر کھڑا کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ایٹمی پروگرام اتنا بڑھ گیا ہے کہ امریکی حکام اور اس میدان کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ 2025ء تک پاکستان کے پاس 250 ایٹم بم کا ذخیرہ ہو گا اوروہ دُنیا کی پانچویں بڑی ایٹمی قوت بن جائے گا۔ اسی وجہ سے پاکستان ایک طاقتور ملک بن کر سامنے آیا ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل چلتا رہے۔
تازہ ترین