یہ غالباً 1998 کی بات ہے کہ مجھے ڈھاکہ جانے کی ضرورت پیش آئی۔ ذاتی طورپر میرا کوئی بھی بنگلہ دیشی دوست نہ تھا۔ میںنے سیدمنور حسن اور سابق وفاقی وزیر مخدوم حامد رضا گیلانی مرحوم کے ساتھ بات کی۔ منور حسن صاحب نے مطیع الرحمانی کے نام خط دیا اور حامد رضا گیلانی صاحب نے فرمایا میرا کوئی دوست تو وہاں نہیں مگر بھتیجا جو بیٹےسے بڑھ کر ہے اس سے رابطہ قائم کر لینا اور یہ نوجوان پاکستان کی قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر جناب فضل القادر چوہدری صاحب کا بڑابیٹاہےاس کے بچپن کے دن ہمارے گھر میں بھی گزرے ہیں۔ انہوں نے کہا رابطہ کرنےمیں تامل نہ کرنا۔ بس میرا نام ہی کافی ہوگا۔ ڈھاکہ روانہ ہوا تو میرے ہمسفر حامد سرفراز صاحب بھی تھے جو شیخ مجیب الرحمٰن کے ذاتی دوست اور مغربی پاکستان میں اکلوتے سیاسی رفیق تھے، ڈھاکہ ایئرپورٹ میں میری حالت کافی خراب تھی۔ ماضی، شخصیات، عمارتیں اور کہانیاںیادآرہی تھیں۔پہلادن تومیری اپنی مصروفیات میں گزرگیا، دوسرے روز میں نے آپریٹر سے کہا کہ میں رکن اسمبلی فضل القادر چوہدری کے ساتھ بات کرسکتا ہوںبات ہوئی تو انہیں بتایا۔سید حامد رضا گیلانی صاحب نے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔ کہنے لگے چچا حامد نے بتایا۔ آپ کہاں ہو۔ کہا سونارگائوں ہوٹل۔ کہنے لگے ابھی آ رہا ہوں۔ کچھ دیر بعد ہوٹل کی لابی میں ایک تنومند لمبا تڑنگا خوشگوار مسکراہٹ سے بھرا چہرہ موجود تھا۔ ہوٹل کا ہر آدمی ان سے مل رہا تھا مگر ان کی نظر مجھے تلاش کر رہی تھی۔ چند لمحات میں میرے سامنے بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کا ذہین و فطین نہایت خوشگوار شخص بانہیں پھیلائے مجھ سے گرمجوشی کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔رات کوکھاناان گھر کھایا،کچھ اورمہمان بھی تھے۔ پاکستان کی فوج، مارشل لا، سیاسی صورتحال، زبان، بنگلہ دیش کا قیام، انڈیا کی مداخلت، حکومت کا جارحانہ رویہ، ہڑتال، بھارت کی مداخلت، تجارت، معیشت غرض ان ہی موضوعات پر بہت رات گئے بات ہوتی رہی۔
اپنے چند روز قیام کے دوران میں بنگلہ دیش کی معتبر ترین مذہبی شخصیت پروفیسر غلام اعظم سے بھی ملاقات کےلیے حاضر ہوا۔ مطیع الرحمٰن نظامی صاحب، ملاقادر سمیت اہم صحافی حضرات کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ مجھے ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمٰن کا گھر بھی دیکھا۔
میں غالباً کئی مرتبہ ڈھاکہ کاروبار کے سلسلے میں اور سرکاری ٹینڈروں میں حصہ لینےکےلیےجا چکا ہوں۔ تقریباً ہر بار میری ملاقات صلاح الدین قادرچوہدری سے ہوتی تھی۔ جرأت مند، غیور، حوصلے سے سرشار کبھی کسی بھی قسم کی مایوسی کا شکار نظر نہ آیا تھا۔ میرے نزدیک صلاح الدین سیاسی بصیرت کے حوالے سے نہایت دوراندیش تھا۔ بھارت کی ریشہ دوانیوںسے واقف تھا۔ ایک مجاہداور مثبت سوچ رکھنے والا عظیم لیڈر تھا زندہ رہتا تو کسی دن بنگلہ دیش کا وزیراعظم ہوتا۔ جوشخص چھ بارکسی مملکت کی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھا چکا ہو اس پر ملک دشمنی کا الزام لغو ہے۔
1971ء کے واقعات کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی فضل القادرچوہدری جن کے نام پر اسلام آباد میں ایک سڑک بھی منسوب ہے اور قومی اسمبلی میںان کی تصویر بھی آویزاں ہےانہیں شیخ مجیب الرحمان کی جیل میں اللہ کی مثیت کے مطابق اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرنے کا موقع ملا۔ شیخ مجیب ان کو قومی اسمبلی میں ادب اور احترام کے ساتھ ملتا تھااورپاکستان کی قومی اسمبلی میں مجیب الرحمان کی تقاریر جن میں وہ پاکستان کے ساتھ محبت اور وفاداری کا اظہار کرتا رہتا تھا آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی نے جس جرم میں تمام گواہوں کو نظرانداز کرکے صلاح الدین کو پھانسی دلوائی ہے۔ یہی جرم مجیب الرحمان بھی پاکستان کی اسمبلی میں کرتارہاتھا۔یہ درست ہے کہ نریندر مودی نے خود اقرار کیا کہ مشرقی پاکستان بھارت نے جنگی طریقوں اور سازش کے ذریعہ الگ کیا تھا۔ اگر بھٹو 1971ء کی اسمبلی میں شریک ہوتا تو حسینہ واجد آج پاکستانی ہوتی۔ ساری دنیا نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری کو جھوٹ کی بنا پر قائم کردہ فراڈ گواہوں کی شہادت پرپھانسی دی ہے۔ علی حسن مجاہد اور صلاح الدین دونوں وزیر رہے اور بنگلہ دیش کے شہری بنے پھر بھی جرم پاکستان سے محبت!… یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ 1974ء میں جب بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے معاملات طے ہو رہے تھے تو معاہدہ ہواتھا کہ کسی بھی شخص پر جنگی جرائم کا مقدمہ نہ چلے گا۔ ایسے میں حکومت پاکستان کو علم تھا کہ پھانسی دینے کا مقدمہ بنا ہے اور کارروائی ہو رہی ہے تو پھران کی زبان مقامی طورپر اور بین الاقوامی طورپر کیوں چپ رہی۔ میرے نزدیک یہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ صلاح الدین قادرچوہدری کواو آئی سی کی سیکریٹری شپ کےلیے پاکستان نے نہ صرف حمایت کا یقین دلایا تھا بلکہ دوسرے ممالک کو بھی قائل کیاتھا مجھے یادہے جب صلاح الدین پاکستان آئے توانہوںنے مشرف، جمالی کے ساتھ ملاقاتیں کی۔ محمدمیاں سومرو تو ان کے ذاتی دوست ہیں۔ یہ اعزاز مجھے بھی حاصل رہا کہ وہ میرے گھرپر بھی تشریف لائےجبکہ اسحاق خاکوانی ہمارے مشترکہ دوست تو ان کی پنجاب یونیورسٹی میں قیام کی تصدیق وائس چانسلر سے بھی کروا چکے تھے، حسینہ واجد نے ہمارے محبوب دوست کے حق میں گواہی دینے والوں پر بنگلہ دیش میں داخلہ پر پابندی بھی لگادی۔ سراج الحق کئی بار وزیراعظم سے اس بارے میں بات بھی کر چکے تھے کہ مقدمہ چل ہی نہیں سکتا مگر ہماری حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ صلاح الدین قادر چوہدری کا عدالتی قتل بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت اور نظریہ پاکستان کو نہ صرف زندہ رکھے گا بلکہ جس طرح ان کے والد نے اور خود انہوں نے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر ظلم اور بربریت کو برداشت کرتے ہوئے جان دی ہے وہ رنگ لائے گی اور پاکستان دشمن بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اگر کوئی صاحب ان کے گھرانہ سے تعزیت کرنا چاہیں تو وہ اسحاق خاکوانی یا مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔