• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف غداری کیس کی از سرنو تحقیقات کا حکم دیاتومیری آنکھوں میں سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کا چہرہ لہرا گیا۔تاریخ میں کئی لوگ ہیرو سے زیرو ہوئے مگر افتخار چوہدری کا معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔جب وہ ہیرو ہوا کرتے تھے توتاریخ کی ایک کہانی اکثر میرے ذہن میں گھومتی رہتی تھی کہ قاضی القضاۃ یحییٰ بن قاسم بادشاہ کے محل میں بلایا گیا ۔وہ کئی مرتبہ پہلے بھی بادشاہ کے محل میں مختلف تقریبات میں شرکت کیلئے جا چکا تھا مگر آج اسے علم تھا کہ وہاں کوئی تقریب نہیں ہے۔کئی اچھی بری باتیں ذہن میں آئیںمگر مضبوط دل کا آدمی تھا۔دو گھوڑوں والی بگھی میں بیٹھ کر بادشاہ کے محل میں پہنچ گیا۔اسے انتظار گاہ میں جہاںبٹھایاگیا وہاں سے محل کاوسیع دالان دکھائی دیتا تھا۔اس نے دیکھا کہ دالان میں ایک سکئیرکرو کی طرح کا بھس کا آدمی کھڑا کیا گیاہے اور اسے بالکل اسی جیسے کپڑے پہنائے گئے ہیں یعنی وہ قاضی القضاۃ کے لباس میں ہے۔ایک طرف کچھ تیرانداز سپاہی دکھائی دئیے۔جو اس پر نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھرنے لگیں ۔سنسناتاہوا تیرجیسے ہی اس بھس بھرے قاضی القضاۃ میں اترتا تو اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے تیر اس کی چھاتی سے گزر گیا ہے۔وہ کافی دیر یہ تماشا دیکھتا رہا اور پھر اس نے دیکھا ایک تیز رفتار گھڑسوار اس بھس کے آدمی کے قریب سے گزرا ہے اور اس نے تلوار سے اس کی گردن دھڑ سے الگ کردی ہے۔اب اس کیلئے یہ تماشا دیکھنا مشکل ہو گیا تھا اس نے خوف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔اسے اپنی موت کا یقین ہونے لگا تھااسے وہ تمام باتیں یاد آنے لگیںکہ جو کبھی اس نے بادشاہ کے خلاف سوچی تھیں ۔ ایک ایک کرکے کئی فیصلے آنکھوں کے سامنے سے گزرگئے ۔ ضمیر نے ذراسی انگڑائی لی اور کہا تم نے وہی فیصلے کئے جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھے۔ اس کے ذہن میں کشمکش شروع ہوگئی کہ کیا مجھے بادشاہ کے سامنے جھک جانا چاہئے یا ایک بہادرآدمی کی طرح موت کو گلے لگا لینا چاہئے۔ موت۔ وہ کانپ اٹھا۔مرنے کا تصور بہت ہولناک تھا۔مگرپھر اسے ضمیر کچوکے مارنے لگا۔وہ کرسی سےاٹھ کھڑا ہوا اس نے دیکھا کہ دروازے پر کھڑے پہرے دار نے اپنی میان سے تلوار باہر نکال لی ہے ۔اس نے جلدی سے اس طرف سے آنکھیں چرائیں اور منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔وہ پھربھاری بھاری قدموں سے چلتا ہوا کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ دالان میں اس وقت سپاہی نہیں تھے ۔صرف بھس کا بناہوا قاضی القضاۃ کا زمین میں گڑاہوا دھڑنظر آرہاتھاجو تلوار کے وار سے ایک طرف جھک گیا تھا اور اس کے قریب ہی اس کا کٹا ہواسر بھی پڑا تھا اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگاتھا جیسے وہ بھس بھرا ہوا کوئی دھڑ نہیں خود اس کا جسم ہے اوروہ کٹا ہوا سرخود اسی کی کاسر ہے۔ انتہائی صبرآزمادو گھنٹوںکے بعد بادشاہ نے اسے بلالیا۔اور اپنی بلی کو سہلاتے ہوئے بڑے نرم لہجے میں کہا کہ’’ آپ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیںیہی ہم سب کیلئے بہتر ہے‘‘۔
اس کے بعدکچھ دیر خاموشی رہی ۔بادشاہ نے اسی لہجے میں پھر کہا’’شاید آپ کو سوچنے کیلئے وقت چاہئے آپ دوسرے کمرے میں آرام سے بیٹھ کر سوچئے۔ ‘‘ قاضی القضاۃگومگو کی کیفیت میں دوبارہ اسی انتظارگاہ میں آکر بیٹھ گیا۔پھراس نے دیکھا کہ کچھ پہرے دار انتظارگاہ کے اندر ننگی تلواروں کے ساتھ آئے اور اس سے کچھ فاصلے پر آکر کھڑے ہو گئے ۔اس نے ان کی قہر آلود نظروں سے بچنے کیلئے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سوچنے لگاکہ کیاوہ استعفیٰ دیدے یا عزت کی موت کو گلے لگا لے۔اس نے اپنا دل مضبوط کرنے کی کوشش کی تو بیوی بچے اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔مگر اس کمزور لمحے میں بھی اس نے سوچا کہ ان کیلئے ایک بزدل زندہ باپ کی اولاد ہونے سے ایک بہادر اورغیرت مند مردہ باپ کی اولاد ہونا زیادہ بہتر ہے۔ اسی کشمکش میں تقریباً چار گھنٹے گزر گئے۔ اسے اندازہ تھا بادشاہ اسے جان بوجھ کر انتظار کی اذیت سے گزار رہا ہے ۔ اور پھر بادشاہ نے اسے بلا لیا۔ بادشاہ کمرے میں کھڑاتھا ۔ اسے دیکھ کراس نے بہت کرخت لہجے میں پوچھا کیا فیصلہ کیا ہے۔ قاضی القضاۃ نے اپنی تمام حسیات مجتمع کرکے کہا ۔میں نے سوچ لیا ہے میں مستعفی نہیں ہوں گا۔ بادشاہ نے غصے کے عالم میں تلوار کھینچی۔ موت قاضی القضا ۃکی آنکھوں کے سامنے لپکی مگر بادشاہ نے اس پر وار کرنے کی بجائے اپنی محبوب ترین لمبے لمبے کالے بالوں والی بلی کی گردن تن سے جدا کر دی اور کمرے سے نکل گیا۔ لہو میں بھری ہوئی مردہ بلی اور قاضی القضاۃ کمرے میں اکیلے رہ گئے ۔ چند لمحوں کے بعد کچھ ملازم مردہ بلی کی میت اٹھانے آئے پھرایک پہرے دار وارد ہوا اور اس نے کہا۔ آپ جا سکتے ہیں ۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا محل کے بڑے دروازے کی طرف جانے لگا اسے ہر لمحہ یہی احساس ہورہا تھاکہ ابھی کوئی سنسناتا ہوا تیرپیچھے سے آئے گا اور اس کا سینہ چیر دے گامگرکئی طویل راہداریوں سے گزرنے کے بعدبھی ایسا کچھ نہیں ہوااس نے سوچاکہ شاید بادشاہ خوف فسادِ خلق کی وجہ سے مجھے اپنے محل میں قتل نہیں کرنا چاہتا۔وہ محل کے بڑے دروازے سے باہر نکل آیا۔باہر اس کی دو گھوڑوں والی بگھی باہر موجود تھی وہ جلدی سے اس میں سوار ہو گیا اوربگھی چل پڑی ۔ وہ پسینے سے شرابور تھا۔اسے اپنی سانس درست کرنے میں بھی کچھ وقت لگا۔ گھٹن کے احساس کو دور کرنے کیلئے اس نے اپنے اچکن نما لبادے کے بٹن کھول دیئے اوراپنی دستاراتار کر اپنے قریب سیٹ پر رکھ لی اچانک اس کی نظر بگھی میں لگے ہوئے شیشے پر پڑی اور وہ حیرت سے اپنا چہرہ دیکھنے لگا ۔
وہ چھ گھنٹے اتنے طویل تھے کہ اس کے سر کے بال بھی سفید ہو گئے تھے ۔ اس وقت مجھے یہ واقعہ افتخار محمد چوہدری اور پرویز مشرف کی کہانی محسوس ہوا کرتا تھامگرمیں کیا کروں کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود سابق چیف جسٹس کے بال تک بھادوں کی رات کی طرح کالے ہیں اوربادشاہ نہ ہونے کے باوجود پرویز مشرف کے چہرے پر بادشاہوں کی سی تمکنت ہے۔جسے دیکھ کرکیس کی از سر نو تحقیقات کانپ کانپ جاتی ہیں۔یقینا یہ پوچھ گچھ بھی اسی طرح کی ہوگی جیسے ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں وزیر اعظم نواز شریف سے کی تھی۔
تازہ ترین