• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کی تخلیق کو 44برس بیت گئے اور اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ فروری 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو باضابطہ طور پر تسلیم کرکے رواداری کا مظاہرہ ہی نہیں کیا تھا، بچھڑے بھائی کو ایک نئے انداز میں پھر سے سینے سے لگانے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ بنگلہ دیش کا رویہ بھی حوصلہ افزا تھا۔ وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمٰن نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1973ء میں تشکیل پانے والے وار کرائمز ٹریبونل کو بیک برنر پر رکھ دیا تھا۔ اور لاہور سمٹ کے صرف دو ماہ بعد اپریل 1974ء میں دہلی میں ہونے والے سہ فریقی (پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش) معاہدےمیں عندیہ دیا تھا کہ 1971ء کے سانحہ سے جڑے ’’جرائم‘‘ کے حوالے سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے لوگ معاف کرنا بڑی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ مذکورہ سہ فریقی معاہدہ، جس پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے دستخط کئے تھے، میں ’’جنگی جرائم‘‘ کے مرتکب 195قیدیوں کی بات بھی ہوئی تھی۔ اور بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ان پر مقدمہ چلانے کی بجائے انہیں بھی دیگر جنگی قیدیوں کی طرح پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس معاہدےکے بعد وار کرائمز ٹریبونل کا وجود تقریباً ختم ہوگیا تھا۔
مگر برا ہو سیاست کا، جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اقتدار کی تمنا اہل سیاست کو کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ کرسکتی ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی حسینہ واجد کو جب کوئی جذباتی قسم کا نعرہ نہ ملا، تو وار کرائمز ٹریبونل کے احیاء اور جنگی جرائم کے مرتکب لوگوں کو نشان عبرت بنانے کا ہیجان انگیز اعلان کردیا۔ نتیجتاً اب تک چار لوگ پھانسی کے پھندے پر جھول چکے۔ حال ہی میں ڈھاکہ سینٹرل جیل میں موت کو گلے لگانے والے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے صلاح الدین قادر چوہدری اور جماعت اسلامی کے علی احسن مجاہد بھی ان میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے۔ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے رکن اور وزیر رہ چکے ہیں۔ صلاح الدین قادر متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر فضل القادر چوہدری کے صاحبزادے ہیں اور بنگلہ دیش نے انہیں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لئے نامزد بھی کیا تھا۔ حسینہ واجد کی یہ حکمت عملی فی الحقیقت شیخ مجیب الرحمٰن کے مفاہمانہ رویے کی نفی ہے۔ جس کا نوٹس حقوق انسانی کے حوالے سے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے بھی لیا ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گواہوں کی تعداد کے حوالے سے بھی جانبداری برتی گئی۔ صلاح الدین قادر کیس میں استغاثہ نے 41گواہ پیش کئے، جبکہ دفاع میں صرف چار شہادتیں پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ اقوام متحدہ کا تبصرہ تھا کہ مذکورہ ٹریبونل کا طریق کار فیئر ٹرائل کے بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں تھا۔ شہادتوں کا کراس ایگزامنیشن بھی نہیں ہوا۔ صلاح الدین قادر کیس میں استغاثہ کے ایک گواہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ میری گواہی کی فلاں شخص بھی تائید کرتا، مگر بدقسمتی سے وہ دنیا میں نہیں رہا۔ بعد میں موصوف کا یہ بیان غلط ثابت ہوا، مذکورہ شخص زندہ تھا۔ مگر سپریم کورٹ نے شدید غلط بیانی کے باوجود گواہ کی خرافات کو رد نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کے علی احسن مجاہد کے کیس میں استغاثہ نے سپریم کورٹ کے روبرو دعویٰ کیا کہ موصوف نے اپنے ماتحتوں کو جنگی جرائم پر اکسایا تھا۔ مگر ان نام نہاد ماتحتوں کی شناخت ہوئی نہ بیان لیا گیا، اور نہ ہی ان کی کوئی فہرست عدالت میں پیش کی گئی۔ دنیا بھر کے عدالتی نظام اس امر پر متفق ہیں کہ ادھوری، مشکوک اور کمزور شہادت پر موت کی سزا ہرگز نہیں دی جاسکتی۔ہمارے فارن آفس نے ان سزائوں پر اظہار تشویش کیا تو بنگلہ دیش سرکار نے سخت برا منایا اور اسے اپنے معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ ان کے ایک ترجمان نے تو میڈیا کے ساتھ گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ہیومن رائٹس، ڈیو پراسیس آف لاء due process of law اور مس کیریج آف جسٹس mis-carriage of justice‘‘ کا ذکر تو وہ کرے، جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ زیادہ تفصیل میں اسلئے نہیں جائوں گا، کیونکہ جو غلطی پاکستان سرکار نے کی ہے، اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ ہم ریاستوں کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور ان کے معاملات میں دخل اندازی سے احتراز کرتے ہیں۔ پاکستان صرف اتنا بتادے کہ ایک برس سے بھی کم عرصے میں جو 300پھانسیاں اس نے دی ہیں، کیا ان سب کے قانونی تقاضے پورے تھے؟ خیر یہ تو پنگ پانگ کا کھیل ہے، جو سفارت کاری میں چلتا رہتا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی طرف سے باہمی دوستی اور بھائی چارے کی تمام تر کوشش کے باوجود، بنگلہ دیش مسلسل معاندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اور اس کی سوئی اس پر اڑی ہوئی ہے کہ 1971ء کے پرآشوب واقعات کے حوالے سے پاکستان، بنگلہ دیش سے معافی کا خواستگار ہو۔ پاکستان نے اس حوالے سے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو مطمئن کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔
سال 2000ء میں پاکستان نے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ اوپن کی، تو معافی کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا۔ موقف یہ اختیار کیا گیا کہ اب تو آپ کا اپنا بنایا ہوا کمیشن دہائی دے رہا ہے کہ 1971ء میں ہونے والے مظالم کی تحقیق و تفتیش کے لئے اعلٰی اختیاراتی کورٹ آف انکوائری تشکیل دی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں۔ کہا گیا کہ پاکستان اگر واقعی نارمل تعلقات چاہتا ہے، تو اس کا راستہ حمود الرحمٰن کمیشن، رپورٹ پر عمل درآمد سے ہوکر نکلتا ہے۔ اگست 2002ء میں صدر مشرف ڈھاکہ گئے تو ان کی پوری کوشش تھی کہ اس حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔ تاکہ فریقین میں سے کسی کی بھی سبکی نہ ہو، بلکہ ون ون پوزیشن والا تاثر ابھرتا ہو۔ چنانچہ ڈھاکہ کے نواح میں قائم قومی شہداء کی یادگار پر دھری وزیٹرز بک میں موصوف نے لکھا تھا: ’’آپ کے پاکستانی بہن بھائی 1971ء کے واقعات کے دکھ میں آپ کے ساتھ شریک ہیں۔ اس پرآشوب دور میں ہونے والی زیادتیاں قابل افسوس ہیں۔ آئیے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کو دفن کردیں اور کوشش کریں کہ وہ ہمارے مستقبل کو دھندلا نہ پائے‘‘۔ پرویز مشرف کی یہ تحریر معافی تلافی کا تمام تر مواد اپنے اندر لئے ہوئے تھی۔ مگر ڈھاکہ کی تشفی نہ ہوپائی اور وہ مسلسل باقاعدہ معافی نامے کا طلب گار رہا۔ اسے بہانہ بناکر وزیر اعظم حسینہ واجد نے نومبر 2012ء میں پاکستان میں ہونے والی ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ’’ڈی۔8‘‘ کے سربراہی اجلاس میں شرکت بھی نہیں کی تھی۔ اور دعوت نامہ لے کر جانے والی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو واضح طور پر بتادیا تھا کہ معافی نامے کے بغیر اس قسم کے روابط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
معافی نامہ کے حوالے سے ہمارے فارن آفس میں دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ حسینہ واجد صاحبہ اسے اپنے عوام کے سامنے ایک بڑی سفارتی فتح کے طور پر پیش کرکے سیاسی فوائد کشید کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی یہ ’’سفارتی فتح‘‘ پاکستان کے لئے بعض پیچیدہ قسم کی مالی اور اقتصادی دشواریوں کا موجب بن سکتی ہے۔ باقاعدہ معافی نامہ کا مطلب یہ ہوگا کہ بنگلہ دیش مظلوم پارٹی ہے اور پاکستان اس کے مطالبات تسلیم کرنے کا قانونی طور پر پابند ہوگا۔ جس سے اثاثوں، قرضوں، امداد اور عطیات کی تقسیم کا کبھی نہ سمٹنے والا پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ ڈھاکہ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ 1970ء کے سیلاب زدگان کے لئے عالمی برادری کی جانب سے آنے والے 200ملین ڈالر بھی آفت رسیدگان کو نہیں پہنچ پائے تھے اور ان کا حساب ابھی باقی ہے۔ باضابطہ معافی کی صورت میں بہاریوں کی پاکستان واپسی کا مسئلہ بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ جس میں اب شاید زیادہ جان نہ ہو۔ کیونکہ ان 45برسوں میں 1971ء والی لاٹ تقریباً ختم ہوچکی۔ اور اس زمانے کے بچوں اور بعد میں پیدا ہونے والوں کا معاملہ ڈھاکہ ہائی کورٹ نمٹا چکی کہ اصل ’’مجرم‘‘ تو ان کے بڑے تھے، ان بے چاروں کا کیا قصور؟ انہوں نے تو بنگلہ دیش کے کاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، لہٰذا انہیں بنگالی شہریت دینے میں کوئی دشواری نہیں ہونا چاہئے۔
تازہ ترین