خبر ہے کہ سابق صدر، جنرل (ر) پرویز مشرف جلد امریکا اور یورپ روانہ ہورہے ہیں جہاں وہ گوروں کو مختلف النوع موضوعات پر لیکچر دیں گے۔ اطلاعات کے مطابق اُنہیں ایک لیکچر کا معاوضہ ایک لاکھ ڈالر کے لگ بھگ ملے گا۔ اگر وہ مختلف دانش گاہوں، تھنک ٹینکس اور علمی فورمز میں دس لیکچر بھی دے پائے تو دس لاکھ ڈالر یعنی سات آٹھ کروڑ روپے کما لائیں گے۔ لائیں گے کہاں، وہیں کہیں کسی محفوظ تجوری میں رکھ آئیں گے جہاں اُن کی کتاب کا ”رزق حلال“ اور دست ہُنرمند کی دیگر کمائی پڑی ہے لیکن یہ ایک ذیلی مسئلہ ہے مجھے یقین ہے کہ پرویز مشرف روپے پیسے کے لئے نہیں، اپنے افکار عالیہ کی نمو، حکیمانہ دانش کے فروغ اور عالمانہ تدبر کی ترویج کے لئے نگر نگر جارہے ہیں۔ میرے لئے مسرت و آسودگی کا پہلو یہ ہے کہ اب مغرب بھی مشرفانہ دانش سے شرف یاب ہوگا اور وہاں کے موسموں میں بھی ان رتوں کی بو باس سما جائے گی جو کم و بیش تینتیس برس پاکستان میں خیمہ زن رہی ہیں۔
یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ پرویز مشرف خطبات امریکا و یورپ کے لئے کن موضوعات کا انتخاب کریں گے البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے گراں قیمت تجربات، شاندار عسکری مہمات، عدیم النظیر سیاسی فتوحات بے مثل آئینی و دستوری اصلاحات اور اپنے اعلیٰ و ارفع فلسفہ اخلاقیات سے اہل مغرب کو ضرور آگاہ کریں گے۔ گوروں کو خصوصی دلچسپی ہوگی کہ ایک عمر فوج میں گزارنے اور سالار اعظم کے عہدے پر پہنچنے والا پختہ کار کمانڈو اپنے فاتحانہ بانکپن کے کسی معرکے کی تفصیل سنائے۔ اس ضمن میں جنرل مشرف معرکہٴ کارگل کی تصویری جھلکیاں دکھاتے ہوئے سفید فاموں کو بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس پیشہ ورانہ مہارت اور چابک دستی کے ساتھ موسم سرما میں کارگل کی برف پوش چوٹیوں پر قبضہ کرلیا تھا جو دشمن پہلے ہی خالی کرکے جا چکا تھا۔ کہانی کے اگلے اوراق وہ حذف کرسکتے ہیں کہ جب دشمن کو خبر ہوگئی تو ان چوٹیوں کا کیا بنا اور کتنے جانباز اس بے سروپا مہم جوئی کی نذر ہوگئے۔ اہل مغرب کے ہاں عام طور پر حلف اور عہد کو وبال جان بنا لیا جاتا ہے بیرونی دنیا سے معاملات میں وہ سب کچھ روا سمجھتے ہیں لیکن اپنے ہاں عہد و پیماں کی پاسداری اور قاعدہ قانون کی تابعداری سے انحراف کا تصور تک نہیں کر پاتے۔ مشرف انہیں مضبوط دلائل و براہین کی بنیاد پر بتا سکتے ہیں کہ حلف چاہے کتاب مقدس پر ہی کیوں نہ اٹھایا جائے، ذاتی مفاد کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اُسے ایک نہیں، کئی کئی بار پائے حقارت سے ٹھکرایا جاسکتا ہے۔ اس پر گورے شاید حیران پریشان ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں لیکن عین اس موقع پر پرویز مشرف، کرتب دکھانے والے کسی ماہر جادو گر کی طرح اپنی آستین سے اس دلیل کا کبوتر نکالیں گے کہ ”حلف، نظریے، اصول، عہد و پیماں سب بے کار کی باتیں ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ”سب سے پہلے امریکا، سب سے پہلے برطانیہ، سب سے پہلے فرانس، جیسا ایک نعرہ تراشنا ہوتا ہے۔ اس سے لوگ شرمناک اور بدترین اقدامات کو بھی یہ سوچ کر قبول کرلیتے ہیں کہ ممکن ہے ملک کا مفاد اسی میں ہو۔ سابق صدر کے ایک لیکچر کا عنوان ”آئین کی حرمت و سربلندی“ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ برس ہا برس سے آئین کی زنجیروں میں جکڑی اور اسے مقدس ترین دستاویز کا درجہ دینے والی کم فہم گوری اقوام کو بتائیں گے کہ کم عقلو ترقی کرنی ہے اور اپنے ملک کی آن بان کو چار چاند لگانے ہیں تو اپنے آپ کو آئین کے بندھن سے آزاد کرو۔ آئین بزدلوں کے راستے کی روک کے سوا کچھ نہیں“۔ وہ اپنے لہجے میں سوزوگداز بھرتے ہوئے، صف بستہ افسروں اور جوانوں سے کہیں گے ”کیا تمہارا کام عراق افغانستان میں ہلاک ہونا ہی رہ گیا ہے؟ کیا اتنے بڑے لاؤ لشکر اور دنیا کے ہلاکت آفریں اسلحہ خانے کے باوجود تم ٹکے ٹکے کے سیاستدانوں کی نوکری کرتے رہو گے؟ اٹھو! خواب غفلت سے جاگو۔ تم ذرا سی ہمت اور تھوڑی سی جرات کا مظاہرہ کرو تو وائٹ ہاؤس تمہارے قدموں میں ہوگا“۔ ممکن ہے حاضرین میں سے کوئی سوال کرے ”سرا آئین کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پرویز مشرف ایک قہقہہ لگا کر یہ شعر پڑھیں گے
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
پھر وہ چہرے پر بلا کی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہیں گے۔ طرز کہن پر اڑنے والی قومیں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ تم اپنا آئین خود بناؤ … یہ روایتی قسم کا آئین کمزوروں کے وسوسے اور بزدلوں کے واہمے کے سوا کچھ نہیں“۔ پھر وہ دونوں مکے فضا میں لہراتے ہوئے کہیں گے“۔ میں نے دو بار آئین توڑا۔ تمہارے سامنے کھڑا ہوں کوئی میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکا“۔ کسی گوشے میں بیٹھا ایک کمزور دل کیڈٹ بولے گا“۔ سر عدالتیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے“۔ صدر محترم پہلے سے بلند تر قہقہہ لگاتے ہوئے کہیں گے۔ ”مائی ینگ فرینڈ! جب آئین کو ٹھڈا مارا جاسکتا ہے تو عدالت کس باغ کی مولی ہے، دیکھو پہلے تو آئین کی گردن پر تلوار چلاؤ۔ پھر اپنا ذاتی آئین جاری کرو جس میں ریاست کے بجائے اپنی ذات سے وفا داری کو شرط لازم ٹھہراؤ۔ اسے پی سی او یا کوئی دوسرا مناسب نام دیا جاسکتا ہے۔ عدالتوں کے ججوں کو اس ذاتی آئین سے وفاداری کا حلف لینے کو کہو ۔ جو ایسا نہ کرے اُسے ٹھڈا مار کر گھر بھیج دو۔ رہا عدالتی فیصلہ تو مائی ڈیئر ! جب بھی یہ خطرہ پیدا ہو جائے کہ عدالت آپ کی مرضی کے خلاف فیصلہ دینے والی ہے اُس عدالت ہی کو ختم کر دو ۔ ججوں کو معزول کرکے قید کردو۔ نئی عدالت بنا لو… مرضی کا فیصلہ لے لو…“
امکانی طور پر، پرویز مشرف مغربی اقوام کو یہ بھی بتائیں گے کہ ”آئین میں ترمیم کے لئے کسی منتخب پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس مقصد کے لئے ایک مخصوص طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے جسے ہمارے ہاں ایل ایف او کہتے ہیں۔ ایل ایف او کے ذریعے تمام من پسند ترامیم ایک خود کار نظام کے ذریعے آپ ہی آپ آئین کا حصہ بن جاتی ہیں اور اتنا پختہ حصہ بن جاتی ہیں کہ آنے والی آزاد اور خودمختار پارلیمنٹ بھی اُنہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتی“۔ عالی مقام سابق صدر پاکستان، مختلف خطبات عالیہ میں گوروں کو بتائیں گے کہ مسلمہ سیاسی جماعتوں میں نقب کس طرح لگائی جاتی ہے، حب الوطنی کے نام پر ضمیر فروشوں کے طائفے کس طرح بنائے جاتے ہیں، مقبول سیاسی رہنماؤں کو کس طرح ملک بدر کیا جاتا ہے، ان کے خلاف مقدمے بنا کر کس طرح نااہل قرار دیا جاتا ہے، کس طرح احتساب کے نظام کو اپنا خدمت گزار سیاسی قبیلہ تراشنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کس طرح گستاخ میڈیا کو لگام ڈالی جاتی ہے وہ بگتی کے قتل، سیکڑوں افراد کی گم شدگی اور جامعہ حفصہ جیسے کارناموں کا حوالہ دے کر انسانی حقوق اور احترام آدمیت کا درس دے سکتے ہیں۔ وہ جری، دلیر اور پُرعزم لیڈر شپ کے حوالے سے نائن الیون کے فوراً بعد کولن پاول کے فون پر اپنے ردعمل کی مثال دے کر بتا سکتے ہیں کہ اپنی آزادی، خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کا تحفظ کس طرح کیا جاتا ہے؟ وہ سی آئی اے کو بھی اس موضوع پر لیکچر دے سکتے ہیں کہ اُس کا اصل کام کیا ہے۔
اگر سابق صدر، جنرل پرویز مشرف کے یہ لیکچرز ”خطبات مشرف“ کے نام سے امریکا اور یورپ کے پالیسی سازوں اور مقتدر حلقوں نے اپنے نصاب کا حصہ بنا لئے تو توقع رکھی جانی چاہئے کہ گورے بھی اُن ثمرات شیریں سے فیض یاب ہونے لگیں گے جو اب تک صرف ہماری جھولی میں پڑ رہے تھے۔