جب سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے، ہندوستان کے سیاست دان اور حکومت مسلسل بے چینی کا شکار ہے اور اس کو اقتصادی اور معاشی طور پر ختم کرنے کے لئے بے چین ہیں، اسی بے چینی کے سبب 1965 میں حملہ کیا گیا اور کبھی اس کے جرنیل لاہور کلب میں شام کی چائے پینے کی باتیں کرتے رہے مگر پاکستانی قوم اور اس کے بہادر عوام ہر مرتبہ اسے اپنی سرحدوں سے دھکیل کر اس کے خواب چکنا چُور کردیتے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر تقسیم شدہ یہ خطہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت وجود میں آیا، انتخابات میں پاکستان اور اُس کی مخالف قوتیں میدان میں موجود تھیں، ہندو سرمایہ دار اپنے پورے مال و زر کے ساتھ وسائل استعمال کررہے تھے، نیشنلسٹ مسلمان بھی پاکستان کی مخالفت میں سرگرم عمل تھے اُن کی خودساختہ جماعتیں پوری قوت اور وسائل کے ساتھ خیبر سے لے کر کراچی تک’’نہیں بنے گاپاکستان‘‘ کےنعرے پوری شدت سے لگا رہے تھے‘ میں سچائی سے اگر اُن کے لیڈروں کے نام لکھوں تو لوگ ناراض ہوجائیں گے کیونکہ سچ بولنا اور سچ سُننا مشکل ترین کام ہے، نیشنلسٹ مسلمانوں کے لیڈر بہت آتش فشاں اور جذباتی مقرر بھی تھے ابھی وہ نسل زندہ ہے، جنہوں نے پاکستان کی مخالفت میں تقریریں کی تھیں، مسلمان عوام ان تقریروں سے متاثر بھی تھے، جبکہ پاکستان کے حق میں تن تنہا ایک بااصول اور سچا انسان اپنے اصولی موقف پر ڈٹا ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ مسلمانوں کی بقاء اس ہی میں ہے کہ ان کی ایک علیحدہ مملکت ہو جس کے حکمراں مسلمان ہوں اور جو اسلامی اصولوں کے مطابق عمل کریں، ایک طرف یہ تنہا بااصول انسان کھڑا تھا اور دوسری طرف کانگریس کا مظبوط دھڑاجو مال و زر سے مالامال تھااور اُس دور کے انتظامی امور پر اُس کا کنٹرول تھا۔ عام انتخابات میں بے وسیلہ اور معاشی طور پر کمزور مسلم عوام نے اُس شخص کی آواز پر لبیک کہا اوربرطانوی حکومت نے جو برصغیر کی حکمراں حکومت تھی اُس کے مطالبے کو تسلیم کرلیا۔ محمد علی جناح مسلم قوم کے واحد نمائندے کی حیثیت سےسامنے آ گیا۔ برصغیرمیں مسلم قوم نے اُن کے حق میں ووٹ دئیے اور پاکستان وجود میں آگیا، ایک طرف طاقت ور کانگریسی لیڈروں کے دولت کے انبار تھے اور کانگریس کے آتش فشاں مقرر یہاں تک کہ نیشنلسٹ مسلمان جو خاصے اثر والے لوگ تھےوہ بھی پاکستان کے مخالف تھے، ہندوسرمایہ دار اور حکومت وقت کانگریسی رہنما کسی حالت میں بھی اس تقسیم کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔قیام پاکستان کے وقت طاقت ور طبقوں نے مشرقی پنجاب اور پوپی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا، میں نے اپنی آنکھوں سے ریل کے ڈبے مسلمانوں کی لاشوں سے بھرے ہوئے دیکھے ہیں۔میں نے اُن لوگوں کو بھی دیکھاجو پاکستان کے سب سے بڑے مخالف تھے مگر سب سے پہلے انہوں نے پاکستان میں پناہ لی۔ 14 اگست1947 کو پاکستان بن گیا، مسلمانوں کا قتل عام ہوا تقریبا چالیس ہزار خواتین کو اغوا کیا گیا، پاکستان کے حصے کا اسلحہ اور روپیہ وغیرہ ہندوستانی حکومت نے نہیں دیا جس پر مہاتماگاندھی کو مرن برت رکھنا پڑا اور پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے ہرحربہ آزمایاگیا،حیدرآباد دکن کی خودمختار ریاست پر قبضہ کرلیا گیا،پاکستان کے اُن وسائل کو جوبرطانوی حکومت نے تقسیم کے وقت دیئے تھے وہ بھی پاکستان کو نہیں دئیے گئے، کشمیر میں جنگ چھیڑدی گئی، الغرض پاکستان کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کے لئے تمام حربے آزمائے گئے، مگر یہ قوم بہت بہادر ہے، وہ لوگ جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی یہاں تک کے پاکستان میں آکر انہوں نے بھی دونوں ہاتھ مال و زر سے رنگے اور پاکستان کی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اور افراتفری پھیلائی، ہندوستان کی حکومت اپنے مشکل ترین حالات کی وجہ سے افراتفری پیدا کرکے پاکستان کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی ہے جو ابھی تک جاری ہے،کشمیر کامسئلہ چھیڑکرہمارے لئے بے حد معاشی اور دفاعی مشکلات پیدا کی گئیں، یہ مسئلہ آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پرموجود ہے پھر بھی کشمیر میں ظلم و ستم جاری ہے مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ یہیںسے شروع ہوگی۔
.