• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمن سے موجودہ حالات پر تبادلہ خیال,,,,,آج کی دنیا…اشتیاق بیگ

مولانا فضل الرحمن سے میری پہلی ملاقات دسمبر 1994ءء میں مراکش میں ہوئی مولانا صاحب اس وقت بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں پارلیمانی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین تھے ۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اسلامی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے ایک بڑے وفد کے ساتھ مراکش کے شہر کاسابلانکا تشریف لائیں جس میں انکی تقریباً پوری کابینہ انکے ساتھ تھی جس میں مخدوم امین فہیم ، چوہدری مختار، خالد کھرل، وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر جیسے لوگ شامل تھے ۔مولانا صاحب اس وفد میں شامل نہیں تھے ۔ مولانا لندن سے مراکش تشریف لائے جہاں انکی اُردن کے شاہ حسین (مرحوم) سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی اس کے علاوہ انکی دوسرے شرکاء سے بھی میٹنگز ہوئیں اور ان کاوشوں کے نتیجے میں اس اسلامی کانفرنس میں تحریک آزادی کشمیر کی بھر پور حمایت کی گئی ۔ تحریک آزادی کشمیر کے اہم رہنما میر واعظ عمر فاروق جو اس وقت نوجوان تھے اس کانفرنس میں شریک تھے اور کشمیر کے حوالے سے کامیابی پر بڑے خوش تھے۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ کا وزیر اعظم بننے کے بعد مراکش کا دوسرا دورہ تھا اس سے کچھ ماہ قبل وہ ایک سرکاری دورے پر مراکش آئی تھیں جس میں انہوں نے مجھے مراکش میں پاکستان کا قونصل جنرل مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔اسلامی کانفرنس کی یہ تقریب ایک یادگار تقریب تھی جس میں تمام اسلامی ممالک کے سربراہان شریک تھے اور مجھے بھی یہ شرف حاصل ہوا کہ میں نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔مراکش میں ہمارے گروپ کا بڑا سیٹ اَپ موجود ہے میں نے پاکستانی وفد کے اعزاز میں سمندر کے کنارے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک ظہرانے کا اہتمام کیا تھا جس میں بے نظیر صاحبہ کی آمد متوقع تھی مگر شاہی محل میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے شریک نہ ہوسکیں ۔
گذشتہ ماہ کراچی کے نمایاں اور اہم کاروباری افراد نے مولانا فضل الرحمن کے اعزاز میں ایک مقامی ہوٹل میں عشائیہ دیا جس میں میں بھی شریک تھا۔ اس عشائیے سے مولانا فضل الرحمن نے بڑ ا مدلل ،مئوثر اور ا فکر انگیز خطاب کیا۔انکے خطاب کا موضوع موجودہ عالمی مالی و معاشی بحران تھا جس سے آج پوری دنیا متاثر ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت کا موجودہ بحران سودی تجارت کی وجہ سے ہے۔ جو بینک اور ادارے سودی لین دین کرتے تھے وہ تباہی سے دو چار ہوئے۔ مولانا نے کہا کہ اسلامی طریقہ تجارت اور سود سے پاک معیشت میں مسلمانوں کی نجات مضمر ہے۔آج دنیا میں بلا سود اسلامی بینکاری نظام فروغ پا رہا ہے قرآن مجید نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے سودی کاروبار کو ممنوع قرار دیا تھا اور آج عالمی ماہرین معاشیات اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ موجودہ مالی بحران کی اصل وجہ سودی بینکاری نظام ہے۔دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر معیشت میں استحکام نہیں آسکتا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی معیشت کا زیادہ تر انحصار اسکی اسلحہ ساز فیکٹریوں پر ہے اور ان اسلحہ ساز فیکٹریوں کی منڈیاں دنیا میں جاری جنگیں ہیں۔ امریکی مفاد اسی میں ہے کہ یہ جنگیں جاری رہیں ۔ میرے علاوہ وہاں موجود کاروباری برادری کے لوگ مولانا کے علم اور معلومات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ عام طور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ علماء جدید معاشی و بین الاقوامی حالات و ضروریات سے واقف نہیں ہیں لیکن اس تاثر کے برعکس مولانا قومی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کاروباری برادری کو پاکستان کی معیشت اور ترقی کے لئے نہایت اہم قرار دیا اور کاروباری برادری کو انکے مسائل کے حل کے لئے کی جانے والی کوششوں میں بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کروانے کا باعث مولانا صاحب تھے۔ قرار داد میں متفقہ طور پر یہ کہا گیا کہ بیرونی فضائی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے، قومی سلامتی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے، فوج کو بتدریج واپس بلایا جائے اور مذاکرات سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ پشتون ہونے اور علاقے کی واقفیت کی وجہ سے مولانا قبائلی علاقوں کے لوگوں کے مزاج اور انکی روایات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ انکی جماعت قبائلی علاقوں میں نمایاں اثرو رسوخ رکھتی ہے اس حوالے سے انکی جماعت کا پارلیمنٹ میں مذکورہ قرار داد میں کردار قبائلی علاقوں کے عوام کی خواہشات اور توقعات کا آئینہ دار تھا۔
گزشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام کراچی کے امیر قاری محمد عثمان نے فون کرکے بتایا کہ مولانا ایک دن کے لئے کراچی تشریف لارہے ہیں اور انکی خواہش ہے کہ آپ لنچ انکے ساتھ کریں۔ اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمن سے تفصیلی بات چیت اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ مولانا فضل الرحمن نے مجھے بتایا کہ وہ میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ عام طور پر کاروباری لوگ ملکی و بین الاقوامی سیاست پر اظہار خیال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور محتاط رہتے ہیں۔
لیکن آپ نے نہایت جرأت سے عالمی دہشت گردی اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اظہار خیال کیا ہے اور اس سلسلے میں آپ کا قلم ایک مئوثر آواز بن چکا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ امریکی فضائی حملے روز کا معمول بن چکے ہیں اور شاید یہ کسی مفاہمت کے تحت ہورہے ہیں۔ ان حملوں سے لوگوں میں خوف و ہراس، بے چینی اور امریکہ کے خلاف نفرت میں بے انتہا اضافہ ہو تا جارہا ہے ہر حملے کے بعد امریکہ کا یہ کہنا کہ اس حملے میں غیر ملکی مارے گئے ہیں درست نہیں۔ قبائلی علاقوں میں لشکروں کی تیاری سے حالات میں خرابی آئے گی اور مزید خون خرابہ ہوگا جس کی ایک مثال آئے دن جرگوں پر خود کش حملے ہونا ہے۔کرزئی حکومت اگر ملا عمر سے مذاکرات کے لئے تیار ہے تو ہم اپنے لوگوں سے مذاکرات کیوں نہیں کرسکتے مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں کیوں کہ مقامی لوگوں کو فوجی عمل دخل قطعاً قبول نہیں۔
امریکہ ہر گز نہیں چاہتا کہ ان علاقوں میں طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے انہوں نے کہا کہ جب آمریت آتی ہے تو امریکہ آمر کے لئے امداد کا منہ کھول دیتا ہے کیوں کہ آمریت کے ذریعے اسکی پالیسیوں پر عمل درآمد آسان ہے لیکن جیسے ہی جمہوری حکومت آتی ہے تو امریکی رویہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے ۔ مشرف کے دور حکومت میں امریکہ نے پاکستان کو 10ارب ڈالر دیئے لیکن اب جبکہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا تو امریکہ سے کوئی امداد نہ ملی اور ہمیں آئی ایم ایف کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چونکہ وہ پارلیمنٹ میں امریکی حملوں کے خلاف قرارداد کی منظوری میں نہ صرف پیش پیش تھے اور قبائلی علاقوں میں آپریشن اور جنگ و جدل کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں اس لئے ایک خاص لابی انکے خلاف سرگرم عمل ہے ۔
مولانا سے موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کے بعد جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو مولانا کی باتوں نے مجھے متاثر کیا پاکستانی علاقوں پر بڑھتے ہوئے امریکی میزائل حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ جوں جوں صدر بش کے جانے کے دن قریب آرہے ہیں پاکستانی علاقوں میں امریکی میزائل حملوں میں تیزی آ تی جارہی ہے ا بھی تک یہ حملے سرحدی علاقوں تک محدود تھے مگر گذشتہ ہفتے بنوں پر کیئے جانے والے امریکی میزائل حملے نے ثابت کیا ہے کہ اب امریکی حملے شہروں تک پھیل گئے ہیں ۔ صدر بش جنکی مدت صدارت 10جنوری کو ختم ہونے والی ہے وہ اپنے جانے سے پہلے القاعدہ کے خلاف کوئی بڑا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈا ل سکیں۔یہ حملے امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ کررہے ہیں اور حکومت بھی شدید دباؤ کا شکار ہے کہ وہ امریکی حملوں کوروکنے میں ناکام رہی ہے۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے ممبر مولانا فضل الرحمن بھی ہیں اس کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امریکی جاسوسی طیاروں کو روکنے کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کرے تاکہ حکومت اس پر عمل درآمد کر سکے توقع ہے کہ کمیٹی جاسوس طیاروں کی روک تھام کے لئے کوئی جامع حکمت عملی تیار کرکے حکومت کو دے گی اور اُمید کی جارہی ہے کہ حکومت کمیٹی کی حکمت عملی پر عمل درآمد کرے گی ۔


تازہ ترین