• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رواں مالی سال کے بجٹ کو آئے ہوئے 5 ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ حکومت نے 40 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے منی بجٹ کا اعلان کردیا جس میں تقریباً 350 اشیاء پر 5% سے 10% ریگولیٹری ڈیوٹی، 1% اضافی کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسز لگائے گئے ہیں جو حکومت کے خیال میں لگژری گڈز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اس سال اپنے ریونیو کی وصولی کا ہدف حاصل نہیں کرپائی ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی آئندہ 504 ملین ڈالر کی 15 دسمبر کو ملنے والی 10 ویں قسط کیلئے حکومت کو 30 نومبر تک 40ارب روپے کے اضافی ریونیو کی وصولی کی شرط رکھی تھی جس کی وجہ سے حکومت کو منی بجٹ کا اعلان کرنا پڑا۔ حکومت نے رواں مالی سال ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 3104 ارب روپے مقرر کیا ہے لیکن جولائی سے اکتوبر تک حکومت صرف 801 ارب روپے وصول کرسکی ہے جو ہدف سے 40 ارب روپے کم ہیں۔ میرے خیال میں رواں مالی سال ٹیکس وصولی کا ہدف غیر حقیقت پسندانہ ہے جبکہ حالیہ درآمدی ڈیوٹی بڑھانے سے نہ صرف اشیاء مہنگی ہوجائیں گی بلکہ ان کی اسمگلنگ شروع ہوجائے گی جس سے حکومت کوریونیو کا نقصان ہوگا۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے اہداف کی تکمیل کیلئے کھانے پینے کی درآمدی اشیاء، سگریٹ، گاڑیوں سمیت 350اشیاء مہنگی کردی ہیں جبکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں برقرار رہیں گی، وفاقی حکومت نئے ائرکنڈیشنز، ریفریجریٹرز، سیٹلائٹ ڈش ریسیور، دہی ، مکھن، بسکٹ، شہد ، پنیر، چا کلیٹ ، پرفیوم ، سگریٹ ،شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، مائیکرو ویواوون، مکمل آٹو میٹک مشینیں، ایگزاسٹ فین، سگنل لینے والے آلات سمیت350درآمدی لگژری اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی ہے، یہ ڈیوٹی مقامی تیار شدہ اشیاء پر لاگو نہیں ہوگی۔ ان میں سے 61درآمدی اشیاء ایسی ہیں جن پر پہلے ریگولیٹر ی ڈیوٹی نہیں تھی اور اب ان پر 5سے 10فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے ، 289لگژری اشیا ء پر ڈیوٹی پر 5فیصد اضافہ کیا گیا ہے ،یعنی جن اشیاء پر پہلے 5فیصد ڈیوٹی تھی وہ اب 10فیصد ہو گئی ہے جبکہ 10فیصد ڈیوٹی 15فیصد ہو گئی ہے جبکہ پولٹری مصنوعات سمیت دیگربہت سی درآمدی اشیاپر ایک فیصد ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے ان میں سے9قسم کی عام آدمی کے زیر استعمال ہزاروں اشیاء جن میں ادویات، خام مال، کھاد، الیکٹرک موٹر ، پیڈسٹل فین ،درآمد ی بیج،مینوفیکچرنگ پر یہ ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیں ہوگی، ٹیلی کام سیکٹر پر بھی کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیںہو گی، ایک ہزار سی سی سے اوپر اور 1800سی سی کی پرانی اور استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی میں 10فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ 1800سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر بھی اسی شرح سے اضافہ ہو گا، 800سی سی سے ایک ہزار سی سی تک استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی میں کو ئی اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ مقامی تیار شدہ کسی گاڑی پر بھی کو ئی ڈیوٹی عائد نہیں کی گئی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ حالیہ منی بجٹ سے عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ دنیا بھر میں ‘‘عام آدمی’’ کا مطلب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جن کی آمدنی اور اخراجات تقریباً یکساں ہوتے ہیں اور وہ ساری زندگی آمدنی و اخراجات کی جمع تفریق میں گزار دیتے ہیں یا پھر ایسے غریب لوگ ہوتے ہیں جن کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کیلئے ضروریات کی بنیادی اشیاء خرید سکیں۔ متوسط طبقے میں نوکر پیشہ اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے ہنرمند بھی شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بدنصیبی سے پاکستان میں متوسط طبقہ بیروزگاری، کاروبار کی بندش اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے تیزی سے سکڑ کر غریب طبقے میں شامل ہورہا ہے۔ آمدنی اور وسائل کے کم ہونے کی وجہ سے اس وقت ملک کی 65 فیصد آبادی غربت یا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں اس طبقے کو ‘‘عام آدمی’’ نہیں کہا جاتا، ہمارے ملک میں ‘‘عام آدمی’’ کا اصل مطلب مراعات یافتہ طبقہ ہے جس پرکسی بھی قسم کی مہنگائی کا کبھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے برسراقتدار آنے کے بعد یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ایس آر او کلچر ختم کرے گی اور منی بجٹ نہیں لگائے گی لیکن حالیہ منی بجٹ معاشی پالیسیوں کے تسلسل سے انحراف ہے جسے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔
پاکستان میں قانون کے تحت ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی شرح میں ردوبدل کا اختیار اب پارلیمنٹ کے پاس ہے لیکن حکومت نے حالیہ ٹیکسز عائد کرتے وقت پارلیمنٹ سے منظوری حاصل نہیں کی بلکہ اس سلسلے میں ایس آر او جاری کیا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے ان کی شرائط مان کر ملک میں مہنگائی میں اضافہ کررہی ہے حالانکہ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کے تیل کے امپورٹ بلز میں 2.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے جبکہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اس تناسب سے کم نہیں کی گئیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو حکومت104 کی سطح پر برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل مندی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں نے 206 ملین ڈالر کے فنڈز حال ہی میں نکالے ہیں۔ ایکسپورٹرز کے حکومت کے پاس اربوں روپے کے ریفنڈز پھنس جانے اور پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ملکی ایکسپورٹس میں جولائی سے نومبر 2015ء تک 14% یعنی 1.4 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے جبکہ اسی دورانئے میں امپورٹس بھی 9%یعنی 1.84 ارب ڈالر کم ہوئی ہیں۔ ملک میں بینکوں کی شرح سود کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود نجی شعبے کے قرضوں میں نہایت کمی ہوئی ہے اور نجی سرمایہ کار اپنی معاشی سرگرمیاں پھیلانے کے بجائے سمیٹ رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت بحران کا شکار ہے جس کے نتیجے میں صنعتی شعبے میں نئی سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے مواقع جمود کا شکار ہیں۔
رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جو 20.45 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں جس میں ورلڈ بینک کے 500 ملین ڈالر اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے ملنے والے 400 ملین ڈالر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 18 دسمبر کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ میں پاکستان کیلئے 502 ملین ڈالر کے قرضوں کی قسط کی منظوری دی جائے گی۔ پاکستان کی ترسیلات زر میں 7.5% اضافہ ہوا ہے جو رواں سال جولائی سے نومبر 2015ء تک 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے سب سے زیادہ ترسیلات زر 12.3% متحدہ عرب امارات اور 11% سعودی عرب سے بھیجی گئی ہیں جبکہ امریکہ اور یورپ سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت اور آئی ایم ایف نے جی ڈی پی گروتھ 4.5% رہنے کی توقع ظاہر کی ہے لیکن یہ خطے کے دیگر ممالک چین اور بھارت کی گروتھ سے نہایت کم ہے۔وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کی ترجیحات زیادہ سے زیادہ ریونیو کا حصول ہے لیکن سرمایہ کاری اور نئی ملازمتوں کے مواقع، ایکسپورٹ میں اضافہ اور اونچی جی ڈی پی کا حصول ان کی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے اور راہداری کے اطراف 25 خصوصی معاشی زون کامیاب بنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کار بھی ملک میں نئی سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوں تاکہ درج بالا مطلوبہ اہداف حاصل کئے جاسکیں۔ اسٹیٹ بینک کی جمعہ کو جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ 2014-15ء میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مارک اپ میں کمی کے باوجود نجی شعبے کا ملک میں نئی سرمایہ کاری کیلئے اعتماد بحال نہیں ہوا ہے جس کیلئے شفاف اور طویل المیعاد صنعتی و تجارتی پالیسی کا ہونا ضروری ہے۔ موجودہ دور حکومت میں بجلی و گیس کی سپلائی میں بہتری آئی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ بدستور جاری ہے۔ ان حالات میں حکومت کو ایکسپورٹ کے فروغ اور امپورٹ کےمتبادل کیلئے ایک واضح حکمت عملی اور پالیسی بنانا ہوگی۔
تازہ ترین