• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجیب چلن ہے صاحب !بیمار پرسی کے دوران مریض کی حوصلہ افزائی کی بجائے اسے باور کراتے ہیں کہ تمہارا تو کوئی حال نہیں، رنگ پیلا پڑ گیا ہے اور آنکھیں اندر کو دھنس گئی ہیں۔ مریض کا اس کے ڈاکٹر سے اعتماد بھی اٹھانے کی پوری سعی کرتے ہیں اور اسے ’’گرم دوائیں‘‘ چھوڑ کر نیم حکیموں اور سنیاسیوں کے ٹھکانے بتاتے ہیں۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ آدھی بیماری مریض کو حوصلہ دینے اور اس کی طرف سے خود کو بیمار نہ سمجھنے سے جاتی ہے۔ نیز اگر مریض کا اپنے ڈاکٹر پر اعتماد نہیں ہوگا تو اس کی دوائیں کیا خاک اثر کریں گی ؟ اسی لئے شاعرنے کہا ہے:
کم کر کچھ وقت عیادت
اور مجھے بیمار نہ کر
ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ یہی سلوک ہم اپنی جمہوریت سے بھی کرتے ہیں۔ دن رات اسے کوڑھ زدہ،کرپٹ اور خون چوسنے والی ڈریکو لا جمہوریت کے کوسنے دیتے ہیں اور پھر توقع رکھتے ہیں کہ وہ بستر سے اٹھ کر ترقی یافتہ ملکوں والی فلاحی اور زیرو میٹر جمہوریت بن جائے۔ اپنی اس مریضہ کی سانسیں بحال رکھنے کے لئے اسے خود اپنے نمائندوں کی صورت میں ڈاکٹر منتخب کرکے دیتے ہیں اور پھر چوپالوں سے لے کرمیڈیا تک ان کی برائیاں گنواتے نہیں تھکتے۔ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ مریضہ کا اپنے ڈاکٹروں سے اعتماد اٹھ جائے اور ہم اس کا علاج کسی سنیاسی باوے یا نیم حکیم سے کرائیں۔ کہاجاتا ہے کہ اس کارِ خیر سے جمہوریت کو افاقہ ہو یا نہ ہو مگر ایک مخصوص طبقے کو ضرور ہوتا ہے۔ وضاحت کے لئے ایک مثال عرض ہے کہ ہمارے علاقے کے ایک بزرگ کئی سالوں سے علیل تھے۔ان کا بیٹا علاج کرا کراکے تھک گیا۔کسی نے سرِ راہ صاحبزادے سے پوچھا کہ بزرگوں کا کیا حال ہے ؟ اس نے جواب دیا ’’ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ستر سال سے زیادہ زندہ رہنا کوئی شرافت نہیں‘‘ ہمارے اس آمریت کے مستقل دسترخوانی گروپ کے بھی یہی جذبات ہیں کہ یہاں جمہوریت کو سوتے، جاگتے، کھانستے اور روتے ستر سال ہونے کو ہیں،لہٰذا اس سے بھی اب شرافت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ان کے خیال میں غیر سیاسی فرشتے ہی اس کا شافی علاج کر سکتے ہیں کہ؎
ہو تو سکتی ہے زمین اپنی بھی جنت لیکن
یہ سیاست کے فرشتے نہیں ہونے دیں گے
تاہم دانشوروں کے ان خیالات سے یہ مطلب نہیں لینا چاہئے کہ اس نظام میں سرے سے کوئی خرابی ہی نہیں۔ ہم نے یہ سیکنڈ ہینڈ جمہوریت برطانیہ سے درآمد کی تھی۔ کم بختوںنے اپنے ہاں تو زیرو میٹر جمہوری مشینری نصب کر لی اور ہمیں یہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی پطرسی، تھکی ہوئی اور زنگ آلود مشینری والی گاڑی دے گئے، جو رکے تو کوہِ گراں او ر چلے تو پطرس بخاری کی بائیسکل کی طرح اس کا انگ انگ شور مچائے۔ ہم نے بھی اس کے ’’علاج‘‘ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر شرافت نام کا کوئی پرزہ سرے سے اس میں ہے ہی نہیں۔ کبھی ہم نے اس میں صدارتی انجن فٹ کروایا اور کبھی پارلیمانی۔ کئی دفعہ مارشل لا لگا کر اسے ریسٹ دیا اور اچھی طرح اوور ہالنگ کر کے خفیہ ایجنسیوں کے ہنر کے شاہکار جماعتوں کے پیٹر انجن بھی نصب کیے۔ طاقتور اداروں نے انتخابی نتائج کی نوک پلک سنوار کر اپنی مرضی کے پرزے بھی فٹ کر کے دیکھ لئے۔ قبلہ ضیاء الحق تو جمہوریت کی گاڑی سے اتنی ہمدردی رکھتے تھے کہ کامل گیارہ برس تک اوزاروں سے مسلح ہوکر اس کے انجن میں گھسے رہے۔ آپ نے اسے ہوم میڈ غیر جماعتی انجن سے بھی چلانے کی کوشش کی مگر کم بخت پہلے سے بھی زیادہ دھواں دینے لگی۔ جس طرح ہمارے مشاق موٹر مکینک پرانی گاڑیوں میں جگاڑ لگاتے ہیں اور ان میں مختلف گاڑیوں کے پرزے پھنسا کر اور تھُک تھگڑی لگا کر انہیں چالو حالت میں لاتے ہیں، اسی طرح ہمارے منجھے ہوئے کاریگروں نے مختلف آئین بنانے کے علاوہ 73ء کے آئین میں ترامیم کے ذریعے جگاڑ لگا لگا کر اسے چلتا کرنے کی سر توڑ کوششیں کیں۔ خصوصاً آٹھویں ترمیم کی افادیت واضح کرنے کے لئے تو ہمیں پھر ایک مثال کا سہارا لینا پڑے گا۔ ہماری ایک ملازمہ کو اپنے والد مرحوم کے حسن پر بڑا فخر تھا۔ بتاتی تھی کہ اباجی حاضر سروس حوالدار تھے۔وہ وردی پہن کر نکلتے تو لوگ پیچھے سے دیکھ کر سمجھتے کہ کوئی انگریز جا رہا ہے۔ نزدیک پہنچتے تو چونک کر کہتے کہ اوہ ! یہ تو رمضان مصلی ہے۔ یہی حال ہماری جمہوریت کا تھا۔آئین میں اس ترمیم کے بعد لوگ دور سے سمجھتے کہ یہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ نزدیک آ کر چونک جاتے کہ اوہ ! یہ تو صدارتی ہے۔ہم نے اس جاگیردارانہ جمہوریت کو سرمایہ داری کے تیل سے بھی چلانے کی کوشش کی۔ کرماں والی چل چل کر کھوچل ہو گئی مگر اسے صحیح طریقے سے چلنا نہ آیا۔
ہمارے جمہوریت پسند دانشوروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نظام میں کوئی بڑی خرابی نہیں۔ اگر اسے عدم مداخلت کی پالیسی کے تحت تسلسل سے چلنے دیا جائے تو چھوٹی موٹی خرابیاں خود ہی دور ہو جائیں گی۔ ان کے خیال میں ترقی یافتہ ممالک کے جمہوری نظام میں بھی یہی خرابیاں موجود تھیں، مگر اس کے باشندوں نے کبھی اسے گلا سڑا او ربدبودار نظا م قرار نہیں دیا بلکہ اس مشین کو بلا تعطل چلا کر انہیں دورکیا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ہمارے نظام کی جو خرابیاں اور بیماریاں گنوائی جاتی ہیں وہ تو ہر ملک میں پائی جاتی ہیں۔ اس خوبصورت خیال پر تو ہم آئندہ کے کسی کالم میں کچھ عرض کریں گے۔آج فقط یہ دردمندانہ درخواست کرنی ہے کہ براہِ کرم اپنی مریضہ جمہوریت کی عیادت کا وقت کچھ کم کریں اور اسے مزید بیمار کرنے سے اجتناب فرمائیں۔ نیز جگاڑیوں اور سنیاسیوں کی بجائے مکینکوں اور ڈاکٹروں کو آزادی سے اس کے علاج کا موقع عنایت کریں۔مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جمہوریت پر کئی تجربات کئے ہیں۔ آخر دانشوروںکی بات مانتے ہوئے اسے مسلسل چلا کر ایک اور تجربہ کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟
اگر تسلسل کے ساتھ چلنے سے ہماری جمہوریت تندرست و توانا ہو گئی تو بسم اللہ، ورنہ زیرو میٹر تو ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ جب گاڑیاں مسلسل چلتی ہیں تو ایک دن وہ بھی آتا ہے کہ ان کے میٹر تمام ہندسے گھماکر ایک دفعہ پھر صفر پر آ جاتے ہیں اور وہ زیرو میٹر ہوجاتی ہیں۔ اگر کسی کے خیال میں یہ ترقی معکوس یعنی ریورس گیئر والا سفر ہے تو بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں کہ پیچھے کی جانب گامزن گاڑیوں کے میٹر بھی الٹے چلتے ہیں اور آخر کار صفر پر آ جاتے ہیں۔ بس چلنا شرط ہے، اللہ نے چاہا تو ہر دو صورتوں میں ایک دن ہماری جمہوریت کی گاڑی زیرو میٹر بلکہ ہیرو میٹر ہو جائے گی۔


.
تازہ ترین