مورخہ 2دسمبر2016ء کوروزنامہ جنگ کی اشاعت میں ایک محترم کالم نگارصاحب کا کالم بعنوان’’ جرنیلوں کی ایقان افروز باتیں‘‘ نظر سے گزرا، اس کالم میں انہوںنے 12 نومبر کو کراچی میں ڈی جی رینجرز سے اپنی ملاقات کااحوال بیان کیا فاضل کالم نگارصاحب نے ڈی جی رینجرز سے اپنی دوگھنٹے کی ملاقات میں صرف یک طرفہ مؤقف سنا اور اسے من وعن کالم کی شکل میں پیش کردیا۔ اصولی طورپر ان کو کراچی کے ان مظلوم گھروں کا بھی دورہ کرنا چاہئے تھا جن کے پیارے قانون نافذ کرنے والے متعصب افسران واہلکاروںکے ظلم کا نشانہ بنے اوربنائے جارہے ہیںتاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آتا اور صحافتی اصولوں کی پاسداری ہوتی لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہیں کیاگیا۔
بدقسمتی سے جناب کالم نگار صاحب اور ان جیسے دیگر لکھاریوں نے سانحہ مشرقی پاکستان سے قبل بھی حقائق سے چشم پوشی اختیارکیے رکھی ، سچائی کو عوام سے پوشیدہ رکھا اور اپنی گمراہ کن تحریروں سے عوام الناس کو حالات کا صرف ایک رخ دکھایا جس کا المناک اورشرمناک نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے، پاکستان کا ایک بازومشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیالیکن ہمارے اہل قلم آج بھی اس سانحہ سے سبق حاصل کرنے کو تیارنہیں ہیں۔وہ آج بھی اس روشن حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے کہ طاقت کے ناجائز استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ سانحات جنم لیتے ہیں۔
متعصب لکھاریوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ہرممکن کوشش کی جارہی ہے کہ مہاجروں اور ان کی قیادت کے خلاف گمراہ کن تحریروں کے ذریعہ مہاجروں اور دیگر قومیتوں کے درمیان نفرت کی آگ کو مزید بھڑکایاجائے ، مہاجروںکے احساس محرومی کو احساس بیگانگی میں بدل دیاجائے، تعصب ، عصبیت اورنفرت کا بھرپورمظاہرہ کرکے ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کو دیوار سے لگادیا جائے۔سوال یہ ہے کہ کیانفرت سے نفرت جنم نہیں لے گی؟ اس طرح کا متعصبانہ عمل کرکے ملک وقوم کی کونسی خدمت کی جارہی ہے ؟صحافتی اقدار اور ایمانداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ کالم نگارصاحب محض ڈی جی رینجرز کے مؤقف پر اکتفا نہ کرتے بلکہ سرکاری اہلکاروںکی حراست میں ماورائے عدالت قتل اورگرفتاری کے بعد لاپتہ ہونے والے مہاجرنوجوانوںکے اہل خانہ سے بھی حقائق جاننے کی کوشش کرتے ۔ اگرکسی وجہ سے ایسا کرناممکن نہیں تھا تومیڈیا کے ذریعہ ان معصوم بچیوں کی فریادیں یقیناََ ان کے کانوںتک پہنچی ہونگی جو کراچی پریس کلب کے باہراحتجاج کرتے ہوئے منت سماجت کرتی رہی ہیں کہ ان کے والد اوربھائی طویل عرصہ سے لاپتہ ہیں ،خداراانہیں بازیاب کرایاجائے اور اگر وہ قانون کومطلوب ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیاجائے اورماورائے عدالت قتل میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو آئین اورقانون کے تحت سزا دی جائے لیکن معصوم بچوں کی درد میں ڈوبی فریادیں بھی نام نہاد دانشوروں کے سوئے ضمیرکو جگانے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
کیا کالم نگار صاحب میں اتنی بھی جرات نہیں تھی کہ وہ ڈی جی رینجرز کے سامنے یہ سوال کرتے کہ قانون نافذ کرنے والوں کی حراست میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کیوںرونما ہوئے ؟ صرف آفتاب احمدکےواقعہ کے بارے میں ہی پوچھ لیتے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لیکر تحقیقات کا حکم دیاتھا ، اس تحقیقات کا کیانتیجہ برآمد ہوا؟آفتاب احمد کو حراست کے دوران بدترین تشددکا نشانہ بنانے اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث کن کن اہلکاروںکو گرفتارکیاگیا، انکے نام میڈیااورعوام کے سامنے کیوں نہیں لائے گئے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے انہیںسزا کیوں نہیں دی گئی؟ اسی طرح ان کو ڈی جی رینجرز سے یہ بھی سوال کرنا چاہئے تھاکہ جن 130 سے زائدمہاجر کارکنان کو گرفتارکرکے لاپتہ کیاگیا تھاان میں سے بعض کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پرکون پھینک رہا ہے ؟کئی کئی ماہ سے لاپتہ ہونے والے بعض افراد خیابان سحر سے کیوں بازیاب ہورہے ہیں؟قتل وغارتگری ، دہشت گردی ، بھتہ خوری اورزمینوں پر قبضوں میں ملوث افراد کو سیاسی حیثیت کیوں دلائی جارہی ہے؟ انہیں یہ بھی پوچھنا چاہئے تھا کہ اگر آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہے تو صرف ایم کیوایم کی صفوں میں دراڑیں کیوں ڈالی جارہی ہیں؟ ایم کیوایم کی صفوں سے نکالے گئے افراد کی سرپرستی کیوں کی جارہی ہے؟ایم کیوایم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا کیامطلب ہے اور مبینہ سرکاری سرپرستی میں کالعدم جہادی تنظیمیں جہاد کے نام پر چندہ کیسے اکٹھا کررہی ہیں؟ اگر بقول کالم نگار صاحب ، کراچی آپریشن کے نتیجے میں شہرمیں امن قائم ہوگیا ہے تو پھر کراچی میں قتل وغارتگری ، مارکیٹوں کی دکانوں کے تالے توڑکرچوری ڈکیتی کی وارداتیں اوراسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کیوں رونما ہورہی ہیں ؟
فاضل کالم نگار کو یہ بھی پوچھنا چاہئے تھا کہ جب جب رینجرز اورپولیس نے سہراب گوٹھ اور لیاری میں کارروائی کی انہیں وہاں مسلح مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا اوراپنے جوانوں کی لاشیں اٹھانی پڑیں لیکن مہاجراکثریتی علاقوںمیں دس ہزار سے زائد چھاپے مارنے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروںکوعوام کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت توکجا ایک کنکر بھی نہیں ماراگیاتو ایم کیوایم والے کیسے ’’دہشت گرد‘‘ ہیں کہ آپ جگہ جگہ سے اسلحہ کی کھیپ بھی برآمد کرتے ہیں لیکن ان کی جانب سے کبھی مزاحمت نہیں کی گئی۔ جناب کالم نگارصاحب کو محض یہ سوال ہی نہیں کرنے تھے بلکہ عوام کے سامنے بھی پیش کرنے چاہئے تھے تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی واضح ہوتا۔
ملک بھرکے عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کے کہنہ مشق صحافی اور کالم نگار کی جانب سے حقائق جاننے کیلئے دیانتداری ، ایمانداری اورفرض شناسی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیاجارہا اور تصویرکا ایک رخ دکھاکرعوام الناس کو گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کیوں کی جارہی ہے ۔ فاضل کالم نگار کی تحریر پڑھ کر لوگ یہ سمجھنے میںحق بجانب ہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے اصل ذمہ داروں کی عقلوں پر آج بھی پردے پڑے ہوئے ہیں، ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ آج بھی کاسہ لیسی کا ہنر آزماتے ہوئے وہی گھناؤنا کردار ادا کررہے ہیں جو 1971ء میں کیاگیا تھاجس کا پچھتاوا عمر بھر ساتھ رہے گا۔ فاضل کالم نگار اور ان جیسے دیگر لکھاریوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اصلاح کریں، انصاف سے کام لیں، پوری دیانتداری سے حقائق کو عوام کے سامنے پیش کریں کیونکہ ایک دن سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ایک ایک عمل کا جوا ب دینا ہے۔
.