اس موقع پر ایک قومی امانت کو قوم تک پہنچانے کے جذبے سے میں اپنا ایک واقعہ ضبط تحریر میں لا رہا ہوں جو وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ذہن اور انداز حکمرانی کو سمجھنے میں مدد گار اور ان کے رفقائے کار کی اپنی ذمہ داری بہ حسن و خوبی انجام نہ دینے کی مثال ہے۔
یہ بات ہے 1990کی آئی جے آئی کے زمانہ حکومت کی ہے۔ ہم نے وزارت میں شرکت نہیں کی تھی لیکن پارلیمنٹ میں پارٹی آئی جے آئی کی تھی، جس میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی اہم شریک کار تھیں۔ اقتدار میں آنے کے چند ہی مہینے بعد، نواز شریف صاحب نے بارہویں دستوری ترمیم 1991 کا سلسلہ شروع کیا۔ اس مسودے کے مطابق وزیر اعظم کو صوابدیدی اختیارات دینے کی بات کی گئی جس کے مطابق وزیر اعظم دستور کی جس شق کو چاہےوقتی طور پر معطل کر سکے اور معطلی کی مدت کے تعین کا اختیار بھی وزیر اعظم ہی کو حاصل ہو۔ جب یہ مسودہ ہمارے سامنے آیا تو قاضی حسین احمد مرحوم اور میں نے اس کی بھرپور مخالفت کی جو نواز شریف صاحب کے لئے بڑی ناگوار تھی۔ ہم نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ حق نہ ہم اپنے لئے لینا پسند کریں گے نہ آپ کے لئے اور نہ کسی اور کے لئے، بشمول صدرمملکت۔ پھر صدر غلام اسحاق خان صاحب نے بھی اس کی سخت مخالفت کی اور میاں صاحب کو دستوری ترمیم کا یہ حصہ مسودے سے خارج کرنا پڑگیا۔ نواز شریف صاحب سے ہماری گفتگو کے دوران مسلم لیگ کے کئی وزرا بھی شریک تھے، جو پوری میٹنگ میں مکمل طور پر خاموش رہے لیکن میٹنگ ختم ہونے کے بعد ان میں سے تین نے یعنی جنرل مجید ملک، وسیم سجاد اور حامد ناصر چٹھہ نے مجھ سے فرداً فرداً اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
ملک میں جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے ہر کسی کو دستور، قانون اور اداروں کی مشاورت کا پابند کرنا ہوگا اور چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام وضع کرنا اور پھر اس پر عمل بھی کرنا ہوگا کہ سب اپنی اپنی حدود میں رہیں۔فوج اور عدلیہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی حدود کار میں رہیں اور میڈیا بھی۔ پولیس ہو یا سول انتظامیہ اس کے لئے قانون اور ضوابط کا پابند ہونا ضروری ہے اور حکومت وقت کے اشارہ چشم و ابرو پر اور ان کے ملازم کی حیثیت سے کردار کی ادائیگی دستور اور قانون کی حکمرانی کی ضد ہے۔
انتظامیہ ہو یا پولیس، ایک بڑی تعداد حکمرانوں کی ذاتی پسند ناپسند کے چکر میں رہتی ہے اور اس کو اپنی ترقی اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے زینہ بناتی ہے۔ یہ رویہ جمہوریت ، قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف کے قیام اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سنگین رکاوٹ ہے۔ جمہوریت کو خطرہ اس رویے سے ہے اور جب تک یہ طرز فکر اور طرز عمل نہ بدلے گا، جمہوریت کا مستقبل تاریک رہے گا۔
اس زمانے میں عدالت عظمیٰ نے دو بڑے اہم فیصلے کئے ہیں جو آرڈر کی شکل میں جاری ہو چکے ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ وزیر اعظم کو اپنی صوابدید میں حکمرانی کا اختیار نہیں،سوائے دستوری صوابدیدی اختیارات کے۔ وزیر اعظم کابینہ کے ذریعے فیصلے کرنے کا پابند ہے اور دستور کی دفعہ 90اور 91وفاقی حکومت کی صاف لفظوں میں تعریف دے رہی ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے ان فیصلوں کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی ایک بڑا اہم فیصلہ صادر کیا ہے کہ صوبائی وزیر اعلیٰ کے لئے جہاں یہ ضرور ی ہے کہ وہ کابینہ کے ذریعے کام کرے وہیں دستور انہیں ایسے مشیر بنانے کا اختیار نہیں دیتا جو وزیر کے درجے پر کام اور فیصلے کرسکیں۔
یہ بھی بڑا اہم فیصلہ ہے اس لئے کہ وفاقی حکومت کے سلسلے میں دستور کی دفعہ 93 کے تحت وزیراعظم کے مشورے پر صدر پانچ مشیر مقرر کرسکتا ہے جن کا مرتبہ وزیر کے برابر ہوتا ہے لیکن صوبے کے لئے دستور میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر صوبے میں مشیروں اور خصوصی معاونین کی فوج ظفر موج مقرر ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ سپر یم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کرے گی اور اس کا اطلاق تمام صوبوں پر ہوگا۔ یوں دستور کی خلاف ورزی اور اقرباپروری اور احباب نوازی کا یہ دروازہ بند ہوگا۔
کابینہ اور مشاورت کے تمام اداروں کے بارے میں ہم یہ بات بھی واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہر سطح پر مشاورت کے معنی یہ ہیں کہ مشورے کے نتیجے میں جو فیصلہ کیا جائے گا، اس پر عمل بھی ہوگا۔ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کو مشاورت کے سربراہ کی حیثیت سے شوریٰ کے فیصلے ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اب امت کے اہلِ علم کا اس پر تقریباً اجماع ہے کہ شوریٰ کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے ، محض مشورہ نہیں ہوتا کہ جسے امیر یا صدر ویٹو کرسکے۔
سیاسی جماعتوں میں جمہوریت پر کاری ضرب لگانے والی ایک اور روایت، پارٹیوں میں اور خود حکومتوں میں ایک خاندان کا غلبہ اور قیادت کا وراثت کے طور پر منتقل ہونا ہے۔ وراثت کے ذریعےاقتدار دراصل بادشاہت کی علامت ہے، جبکہ جمہوریت کی روح سے یہ متصادم اور اس کے اصولوں کی ضد ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ بے نظیر صاحبہ کے انتقال کے بعد ان کے زیر تعلیم صاحب زادے پارٹی کے چیئرمین بن گئے اور مرحومہ کے شوہر شریک چیئرمین کی کرسی صدارت پر متمکن ہوگئے ۔ پھر ایوان صدر بھی ان کے تصرف میں آگیا اور صدر صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ ڈرائیونگ سیٹ پر تشریف فرما ہوگئیں۔
یہی معاملہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور اس کی تمام ہم جولی لیگوں کا ہے۔ نیز وہ سب جماعتیں بھی جن کو لبرل، آزاد خیال، بائیں بازو کی اور نہ معلوم کیا کیا ہونے کا دعویٰ ہے، وراثت کے اس دھندے سے پاک نہیں ہیں۔ کچھ دینی جماعتوں میں بھی بدقسمتی سے وراثت ہی کا سکہ رائج ہے۔ ان میں واحد استثنا جماعت اسلامی پاکستان ہے جس نے قیادت، تنظیم، فیصلہ سازی، اندرونی نظام احتساب، ہر پہلو سے حقیقی اسلامی جمہوری آداب کا پورا پورا احترام کیا ہے اور جس میں الحمد للہ جمہوریت اپنے آداب اور اپنی روح کے مطابق جاری و ساری ہے۔
.