• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں حصہ ہی نہیں لینا چاہئے تھا۔سرتاج عزیز کرنے کیا گئے تھے وہاں؟پاکستان کی سخت ہزیمت ہوئی۔ہماری خارجہ پالیسی بہت ہی کمزور ہوگئی ہے۔پاکستان دنیا سے کٹ چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بالخصوص اورپرنٹ میڈیا پر بالعموم ہر پلیٹ فارم پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا تذکرہ سب کا موضوع سخن بن گیا۔مندرجہ بالا چھ سوالات ہر کسی کی زبان پر تھے۔ہر خاص وعام نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس موضوع پر طبع آزمائی کی ۔پاکستان تحریک انصاف تو خصوصی طور پر اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا کے مصداق ا س کانفرنس میں شرکت کرنے پر حکومت پر شدید تنقید ی گولہ باری کی۔ الزامات لگانے کی اس گنگا میں جماعت اسلامی بھی کسی طرح پیچھے نہ ر ہی لہٰذاسراج الحق صاحب نے بھی مخالفت برائے مخالفت کے جذبہ کے تحت حکومت مخالف فتوی صادر کرکے اپنی مخاصمت کاڈول ڈالا ۔پیپلز پارٹی نے شاید یہ یقین کرلیا ہے کہ مفاہمت کی سیاست ایک داغ ہے اور یہ صرف ہر معاملہ میں حکومت کی مخالفت کرکے ہی دھل سکتا ہے۔دوسری طرف جماعت اسلامی نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ حکومت مخالفت کرکے تگڑی اپوزیشن بن جائےاور انھیں آئندہ انتخابات میں اس بنا پر بڑے ووٹ مل جائیں کہ انھوں نے حکومت کی مخالفت کی فرض ادا کیا تھا۔دنیا بھر میں سیاست کا مقصد اولین یہی ہوتا ہے کہ حکومت کو آئینہ دکھایا جائے اور اسے ملک مخالف اورعوام کش پالیسیاں بنانے سے ہر ممکن روکا جائےاور اگر ایسی پالیسی بن جائے تو اسے ختم کرنے کیلئے ہر طریقہ اور وسیلہ اپنایا جائے۔لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ٹی وی پر بیٹھے نام نہاد اینکر قیافہ شناسی کی بنیاد پر اتنے وثوق سے اپنی خبر کے سچا ہونے کے دعوے کرتے ہیں کہ سچ کا گمان ہوتا ہے اور بعد ازاں جب اس خبر کا سر پیر نہیں ملتا تو اس کی معذرت تو دور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے بلکہ اگلے روز کسی اور مقام کی کوڑیاں لانا شروع کردیتے ہیں۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس پر روس نے تو اسی روز پاکستان مخالف بھارتی رویہ کی مخالفت کردی تھی۔ اس کے بعدچین امریکہ ایران اور روس کے اخبارات نے بھی انڈیا کی پاکستان مخالف پالیسی پراختلافی نوٹ دیا جبکہ ہمارے یہاں مخصوص اینکرز ایک مخصوص اسائنمنٹ کے تحت سیاست دانوں کو لیڈ دیکر جواب طلب کرتے رہے کہ پاکستان کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں حصہ نہیں لینا چاہئےتھا؟ایک سیاستدان نے کہا سرتاج عزیز کیا کرنے انڈیا گئے تھے؟ایسا لگتا تھا کہ ہر کوئی بلا سوچے سمجھے اس پر بول کر ثواب دارین کے حصول کا متمنی ہے۔ شیریں مزاری ٹی وی پر کہہ رہی تھیں کہ سرتاج عزیز کے انڈیا جانے پر ہماری سخت ہزیمت ہوئی۔سوال تویہ ہے کہ اگر سرتاج عزیز وہاں نہ جاتے تو شیریں مزاری اور شیری رحمان سمیت دیگران نے یہ کہنا تھا دیکھا انڈیا نے ہمیں تنہا کردیا ہے اس لئے سرتاج عزیز وہاں گئے ہی نہیں۔اگر ہمارا مستقل وزیر خارجہ ہوتا تو ہمارے ساتھ ایسا سلوک نہ ہوتا۔ افسوس ان سمیت کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ ایسا کہہ کر کس کا بھلا کررہے ہیں؟میں تو یہ کہوں گی کہ ایسے تمام لوگوں کو چاہئے کہ وہ غیر ملکی انگریزی اخبارات بھی پڑھیں کہ وہ پاکستان کی کامیاب سفارت کاری ،برداشت اور تحمل پر انڈیا کو ناکام کیوں قرار دے رہے ہیں۔یہاں تک کہ مودی ڈپلومیسی پر بھارت میں ہی انکے خلاف آواز بلند ہوئی ۔معمولی تعداد میں ہی سہی لیکن بھارتی میڈیا نے پاکستان مخالف پالیسی پر سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں کہ بھارتی حکومتی پالیسی بھارت کے مفاد میں ثابت نہ ہوگی۔ جبکہ پاکستان میں غیر پیشہ ور صحا فیوں نے حکومتی پالیسیوں پر ایسے منفی تبصرے کئے کہ جیسے انکا کہا حرف آخرہے اور باقی تما م ریاستی ادارے اور انکی پالیسیاں حرف فضول ہیں۔جہاں تک مستقل وزیر خارجہ کا سوال اٹھتا ہے تو سرتاج عزیز سے بہتر چوائس تو دستیاب ہی نہیں۔حکومتی ملٹری مفاہمت کے تحت وہ مشیر کے نام پربالفعل اور حقیقتاً وزیر خارجہ ہی ہیں ۔میرا یہ خیال ہے کہ کم از کم اس موضوع پر بحث موقوف ہوجانی چاہئے اور سنجیدہ اہل صحافت کو آگے بڑھ کر دیگران کی رہنمائی کرنی چاہئے۔بین الاقوامی طور پر یہ باور ہوتا جارہا ہے کہ علاقائی امن اور دہشت گردی کا خاتمہ مضبوط پاکستان سے مشروط ہےاس کیلئے پاکستان کو تنہا کرنا مناسب نہ ہوگا۔ہارٹ آف ایشیا کا مقصد افغانستان کی بہتری کیلئے مسائل اور وسائل کو زیر بحث لانا تھا لیکن بھارت اور افغانستان نے خود ہی اس مدعا کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے جس پربات کرنی ضروری ہے۔ہر روز ایک نئی خبر ڈھونڈنے والوں کو بدلنا ہوگا۔ انھیں چاہئے کہ مقامی سطح سے اٹھ کر بین الاقوامی فکر سوچ اور زاویوںکو زیر بحث لائیں۔خدارا بریکنگ نیوز ،ہیڈ لائن اور سپر لیڈ بدلیںتاکہ حقیقی طور پر ملک کا فائدہ ہوسکے۔




.
تازہ ترین