• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے حیرت ہے اُن واجب الاحترام اصحاب علم و دانش پر جو یہ فرماتے ہیں کہ ہمیں پہلے دن سے یقین تھا کہ حکمران پاکستان سے دولت لوٹ کر بیرونِ ملک لے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ قابل احتساب لوگ، کسی اور کا احتساب نہیں کر سکتے۔ صاحبو! یہ کیسی منطق اور یہ کیسا استدلال ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تم بھی کرپٹ ہم بھی کرپٹ۔ کھائو پیو موج اڑائو۔ احتساب کا مطالبہ کرنے والوں نے کوئی اپنی عدالت تو نہیں لگا رکھی۔ وہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے استدعا کر رہے ہیں کہ جناب ملکی بیت المال کا محافظ ہونے کی حیثیت سے پہلے وزیر اعظم کا احتساب کیجئے بلکہ اُن میں سے بعض نے تو محاسبے کے لئے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ البتہ قوم یہ چاہتی ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہو کر نیچے تک آئے اور کوئی قابلِ مواخذہ شخص بچ نہ پائے۔
74روزہ عدالتی سماعت کے دوران عوام کی امیدوں کا درجہ بلند سے بلند ہوتا گیا اور لوگوں کو توقع تھی کہ اب وہ دن دور نہیں کہ جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا مگر کیس کی سماعت کے طویل تر ہونے پر لوگوں کو خاصی مایوسی ہوئی۔ عدالت ِ عظمیٰ کے جج صاحبان موسمِ سرما کی تعطیلات پر گئے تو درخواست گزار بھی اپنی نئی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ آئے۔ گزشتہ ہفتے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے لاہور کے چند کالم نگاروں کو تبادلۂ خیال کے لئے منصورہ آنے کی دعوت دی۔ میں بھی وہاں تھوڑی دیر کے لئے حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جس شخص کی پاکستان کی 70سالہ سیاسی تاریخ پر نظر ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جماعت کے قائدین اور کارکنان میں سے کسی کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی معمولی سا داغ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حالیہ مہینوں میں کرپشن کے خلاف علم جہاد سب سے پہلے جماعت اسلامی نے بلند کیا تاہم جماعت اسلامی کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اس کی پالیسی مبہم اور غیر واضح ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ایک رکنی عدالتی کمیشن بنے اور وہ 546لوگوں کا بشمول وزیر اعظم احتساب کرے ، اس موقف پر عوامی ردعمل یہ ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اسلامی اور جمہوری قانون کے مطابق سربراہِ مملکت کا احتساب سب سے پہلے ہونا چاہئے۔ میری ان مختصر گزارشات کے جواب میں نائب امیر جماعت اسلامی اور سابق ایم این اے اسد اللہ بھٹو نے ایک طویل قانونی استدلال پیش کیا جس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حضور ایسی دوٹوک بات کیجئے جو آسانی سے عوام کی سمجھ میں آ جائے۔
عدالتی سماعت کے دوران وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کے دیگر کئی افرادِ خانہ نے بار بار اپنے بیانات بدلے۔ وزیراعظم کا پیش کردہ قطری شہزادے کا خط اور سرمائے کی آمد و رفت کے ریکارڈ کی غیر موجودگی اپنے اندر بہت بڑا قانونی سقم رکھتی ہے تاہم اس دوران عدالت میں وزیر اعظم کا سب سے خطرناک اور چونکا دینے والا یہ بیان پیش کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں پانامہ لیکس پر وزیر اعظم کی تقریر سیاسی نوعیت کی تھی اسے سنجیدہ نہ لیا جائے۔ وزیر اعظم کسٹوڈین آف دی ہائوس ہوتا ہے۔ کسٹوڈین کی حیثیت سے اس کے حلف میں یہ الفاظ موجود ہوتے ہیں کہ وہ کبھی اس ایوان کے اعتماد کو مجروح نہ ہونے دے گا۔ اگر اسمبلی میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے اس ذی وقار ایوان کا اعتماد مجروح کیا ہے تو پھر اُن کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچے گا۔
لگتا یہ ہے کہ کسی مرد دانا نے عمران خان کو یہی نکتہ سمجھایا ہے شاید اسی لئے انہوں نے پارلیمنٹ کی طرف لوٹ آنے اور ایوان کے اندر وزیر اعظم کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی ایوان کے اندر وزیر اعظم کے محاسبے کی حکمت ِ عملی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
عالمی سطح پر 2016حکمرانوں کے محاسبے کا سال ہے۔ پاناما لیکس یا کرپشن کے دیگر الزامات کے تحت کہیں عوامی پریشر کے نتیجے میں کہیں پارلیمانی محاسبے کے نتیجے میں اور کہیں اپنے ضمیر کے دبائو کے نتیجے میں اس وقت تک رواں سال کے دوران مختلف ممالک کے سات حکمرانوں کو اپنا اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اقتدار چھوڑنے والوں میں آئس لینڈ کےوزیر اعظم، جنوبی کوریا کی صدر، گوئٹے مالا، اسرائیل، جنوبی افریقہ، ارجنٹینا اور برازیل کے سربراہوں کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑے اور کہیں کہیں تو حکمرانوں کو ایوانوں سے سیدھا زندانوں میں جانا پڑا تاہم پاکستان میں سبب کچھ بھی ہو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی نااتفاقی سبب ہو یا پارلیمنٹ میں قوت کی کمی اس کا باعث ہو یا سبب کچھ اور ہو جسے وزیر اعظم جانتے ہوں گے مگر ابھی تک تو وہ بچتے بچاتے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی سربراہِ مملکت جھوٹ بولے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رچرڈ نکسن نے اپنے پارٹی مرکز سے متعلقہ کسی معاملے کو جانتے ہوئے جب یہ بیان دیا کہ انہیں علم نہیں تھا تو یہ جھوٹ واٹر گیٹ اسکینڈل کی شکل میں ان کے گلے پڑ گیا اور انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ تیسری دنیا کے پاکستان جیسے ممالک میں حکمران کاروبار سیاست جھوٹ کے ہی بل بوتے پر چلاتے اور چمکاتے ہیں۔ دیکھئے سردست پاکستان میں پانامہ لیکس کا معاملہ عدالت عظمیٰ کی بجائے پارلیمنٹ میں آ گیا ہے۔ اب یہ پارلیمنٹ کا امتحان ہے کہ وہ اپنا اعتماد مجروح ہونے پر وزیر اعظم کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے یا ہتھ ہولا رکھتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی نے پس پردہ ہتھ ہولا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو کوئی خاص نتیجہ نہ نکلے گا اور اگر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی صدق دل سے ایک پالیسی پر ایوان کے اندر متفق ہو جائیں تو پھر ایوان کی کارروائی ان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ دیکھئے اگلے ایک دو روز میں واضح ہو جائے گا کہ قومی اسمبلی وزیراعظم کے جھوٹ کا محاسبہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا ناکام اور اس کے ساتھ ہی پانامہ لیکس کے اونٹ کی کروٹ کا بھی پتہ چل جائے گا۔

.
تازہ ترین