اسلام آباد (فخر درانی)اگرچہ میڈیا نے کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ میں صرف آسان ہدف چوہدری نثار علی خان کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے لیکن ایف سی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار سے متعلق بہت سے اہم اکتشافات نظرانداز کردیے گئے ہیں۔ اگر اس پر اس کی پوری روح کے مطابق عمل کیا جائے تو کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ نے ایسی کئی چیزوں پر روشنی ڈالی ہے جس میں حکومت کی مکمل توجہ کی ضرورت ہے اور جس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کے عفریت کو ختم کر کے مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین باہمی رابطوں کی کمی کے بارے میں میڈیا کئی مرتبہ روشنی ڈال چکا ہے لیکن کمیشن نے بھی ایک مرتبہ پھر اس کی نشاندہی کی ہے۔ یہاں تک کہ کمیشن سے قبل بلوچستان ہائی کورٹ چار سال قبل دہشت گردی کیس کے فیصلے میں یہ ہدایت جاری کرچکی ہے کہ جب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بلایا جائے تو ایف سی کو فوری معاونت کے لئے آنا چاہیے۔ کمیشن کی رپورٹ کے پیراگراف نمبر 15 میں مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کے حوالے ایف سی کے کردار پر تفیصل سے بحث کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’جب پولیس نے حورمزئی میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ کو گھیر لیا اور ایف سی کو کمک کے لئے بلایا تو تین گھنٹے کے بعد بھی ایف سی مدد کے لئے نہیں پہنچی۔ ‘‘کمیشن نے چیف سیکرٹری کےاس بیان کی بھی توثیق کی ہے جس میں پولیس کے ساتھ ایف سی اور لیویز کے عدم تعاون اور تعاون میں کمی کی بات کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ایف سی اور لیویز کے عدم تعاون سے متعلق چیف کمشنر کے بیان کی بھی توثیق کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس، ایف سی اور لیویز کے مابین ہم آہنگی اتنی اچھی نہیں ہوتی جتنی کہ ہونی چاہیےاور اس طرح کا مسئلہ بھی پیش آیا ہے کہ ایف سی کے مقامی کمانڈر ن ے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اجلاس کرنے سے اتفاق نہیں کیا جبکہ ڈپٹی کمشنر اس حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کا مقامی سربراہ ہوتا ہے۔ بلوچستان میں ایک بڑا مسئلہ صوبے کی دو حصوں میں تقسیم بھی ہے، ایک حصہ بلوچستان کی پولیس کے کنٹرول میں ہے جو صرف 10 فیصد ہے جبکہ باقی ماندہ 90 فیصد حصہ لیویز فورس کے کنٹرول میں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ اے اور بی ایریا میں تقسیم ہے۔ پاکستانی معیشت پر دہشت گردی کے معاشی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہےکہ پاکستان کو مالی سال 2002 سے مالی سال 2016 تک 118 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جو پاکستان کے بیرونی قرضوں سے تقریبا دگنا ہے۔ رپورٹ میں حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کا ڈیٹا بینک تیار کرنے کے حوالے سے حکومتی بے عملی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کمیشن نے ایک اور اہم پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے جو دہشت گردی کے خلاف بیانیہ تیار کرنے سے متعلق ہے اور جو دہشت گردی سے متاثرہ ملک میں ناپید ہے۔ رپورٹ میں میڈیا کے کردار پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے اور اس کی کوریج کو دہشت گردوں کے پروپگنڈے پر مبنی قرار دیا گیا ہے جبکہ وزارت مذہبی امور بھی اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا بنیادی مینڈیٹ بین المذاہب ہم آہنگی قائم کرنا ہے۔