• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2016ء کا سال جاتے جاتے ہمیں ایسی بڑی شخصیتوں سے محروم کرگیا جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے تھے جن میں معروف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی، امجدصابری اور جنید جمشید جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ شوبز کی چکا چوند دنیا کو خیرباد کہہ کر اپنی زندگی اسلام کی خدمت و تبلیغ کیلئے وقف کردینے والے جنید جمشید کی ناگہانی موت نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے چاہنے والوں کو سوگوار کردیا ہے۔ جنید جمشید نہ صرف اچھے انسان بلکہ محب وطن سچے پاکستانی بھی تھے۔ ’’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان‘‘ گاکر انہوں نے اپنی حب الوطنی کا عظیم الشان مظاہرہ کیا اور یہی ترانہ اُن کی پہچان بنالیکن جب وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے تو معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی سماعتوں نے اُن کی زندگی میںانقلاب برپا کردیا جس کے بعد انہوں نے نئی روحانی اور دعوت و تبلیغ کی دنیا کا انتخاب کیا اور نہ صرف اپنی وضع قطع سے لے کر معمولات زندگی کو مذہب اسلام کی تبلیغ کیلئے وقف کردیا بلکہ تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر اسی مشن پر چلتے ہوئے اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کردی۔
جنید جمشید کے چاہنے والے نہ صرف پاکستان بلکہ مراکش سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جنید جمشید سے میرے قریبی مراسم تھے اور ان سے اکثر میری ملاقات رہتی تھی۔ طیارہ حادثے سے ایک ہفتے قبل انہوں نے فون کرکے مجھے بتایا کہ ’’فروری میں وہ تبلیغ کے سلسلے میں اپنی فیملی کے ہمراہ مراکش جانا چاہتے ہیں اور مراکش کے ویزے کے سلسلے میں آپ کی مدد درکار ہے۔‘‘ انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ’’زیادہ اچھا ہے کہ اُن کی مراکش میں موجودگی کے موقع پر آپ بھی وہاں موجود ہوں۔‘‘ جنید جمشید اس سے قبل کئی مرتبہ تبلیغ کے سلسلے میں مراکش کے شہر کاسابلانکا سمیت مختلف شہروں کے دورے کرچکے تھے۔ کچھ سال قبل جب وہ تبلیغ کیلئے مراکش گئے تو میری خواہش تھی کہ وہ وہاں میرے گھر پر قیام کریں لیکن مراکش میں انہوں نے تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ تک اپنا قیام مسجد میں رکھا۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ جنید جمشید کا مراکش کی مسجدوں میں قیام کس طرح ممکن ہوا کیونکہ وہاں کی تمام مساجد نماز عشاء کے بعد بند ہوجاتی ہیں اور مسجدوں میں مسافروں کو قیام کی اجازت بھی نہیں۔ میں نے جب جنید جمشید سے گھر میں نہ ٹھہرنے کا شکوہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’اشتیاق بھائی! میں مراکش آرام کرنے نہیں بلکہ تبلیغ کیلئے گیا تھا اور مسجد میں رہ کر نہ صرف مجھے زیادہ سکون ملتا ہے بلکہ یہاں آنے والے نمازیوں سے اچھے دوستانہ تعلقات استوار ہوجاتے ہیں۔‘‘ شاید یہی وجہ تھی کہ مراکش میں جنید جمشید کے دوستوں کا وسیع حلقہ تھا اور ان کی شہادت کے بعد مجھے مراکش سے ان کے کئی دوستوں کی ٹیلیفون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے جنید جمشید کی المناک موت پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی شہادت سے قبل جنید جمشید جب تبلیغ کیلئے چترال گئے تو وہاں بھی انہوںنے مسجد میں ہی قیام کیا تھا جبکہ اُن کی اہلیہ دیگر مبلغ خواتین کے ہمراہ گھر میں قیام پذیر رہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جنید جمشید کے کاروبار میں اتنی برکت دی تھی کہ وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے، اللہ اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا تھا۔ میں نے جب بھی جنید جمشید سے اُن کی کامیابی کا راز پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’میں بینک سے سودی لین دین نہیں کرتا، اپنے ہر کام میں اللہ کو شریک رکھتا ہوں اور کاروبار میں ہونے والے منافع کا ایک حصہ اللہ کے ضرورت مند اور مستحق بندوں کیلئے مختص کردیتا ہوں۔‘‘ جنید جمشید سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کے میرے فلاحی ادارے میک اے وش فائونڈیشن پاکستان سے بھی جنید جمشید کا بہت گہرا لگائو تھا، وہ ہمیشہ رمضان ٹرانسمیشن میں مجھے میک اے وش کے لاعلاج بچوں کے ہمراہ خصوصی طور پر مدعو کرتے تھے اور بچوں کی خواہشات کے مطابق اپنی جیب سے اُنہیں تحفے تحائف دیتے تھے جبکہ میک اے وش کے وہ بچے جن کی خواہش عیدالفطر، عیدالاضحی اور دیگر مذہبی تہواروں پر نئے کپڑے پہننے کی ہوتی تھی، کو نئے شلوار سوٹ کی فراہمی کیلئے جنید جمشید نے اپنی کمپنی کے اسٹاف کو خصوصی ہدایات دے رکھی تھیں۔
عبدالستار ایدھی کے بعد جنید جمشید وہ دوسری غیر سیاسی شخصیت تھے جن کی میت کو قومی پرچم میں لپیٹ کر مسلح افواج نے گارڈ آف آنر پیش کیا جو یقینا ایک اچھی روایت ہے۔ جنید جمشید کی نماز جنازہ معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے پڑھائی جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ میں نے اس سے قبل کسی شخصیت کے جنازے میں لوگوں کی اتنی کثیر تعداد نہیں دیکھی تھی جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ لوگ جنید جمشید کیلئے اپنے دل میں کس قدر والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ جنید جمشید کی موت کے بعد جب میں تعزیت کیلئے اُن کی رہائش گاہ پہنچا تو وہاں مولانا طارق جمیل اور مفتی محمد نعیم بھی موجود تھے جو جنید جمشید کی المناک موت پر انتہائی رنجیدہ نظر آرہے تھے۔ اس موقع پر جنید جمشید کے بڑے بھائی ہمایوں جمشید نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے ’’جنید جمشید فائونڈیشن‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں مجھے آپ کی خدمات درکار ہوں گی جس پر میں نے انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
جنید جمشید نے اپنی زندگی اللہ اور رسولﷺ کے احکامات پر وقف کر رکھی تھی، وہ اپنے دل میں کسی مسلک یا شخصیت کے خلاف کوئی مخالفانہ جذبات نہیں رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل جب اسلام آباد ایئرپورٹ پر کچھ مذہبی انتہا پسندوں نے جنید جمشید پر حملہ کیا تو میں نے رات گئے اُنہیں فون کرکے خیریت دریافت کی۔ جنید جمشید نے بتایا کہ انہوں نے اللہ کی رضا کیلئے حملہ آوروں کو معاف کردیا ہے اور وہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروانا چاہتے۔ جنید جمشید کا یہ عمل ان کی عظمت اور عفو و درگزر کا واضح ثبوت تھا۔ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نیک بندوں کو جلد اپنے پاس بلالیتا ہے۔‘‘ اس سال عیدمیلاد النبیﷺ کے موقع پر مجھے جنید جمشید کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ ان کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ ’’جب کسی وجہ کے بغیر آپ کے دل کو خوشی محسوس ہو تو یہ اس بات کا مظہر ہے کہ کسی نے آپ کو اپنی دعائوں میں یاد رکھا ہے۔‘‘ جنید جمشید گوکہ آج اس دنیا میں نہیں رہے اور وہ ہم سے دور ہوکر اپنے رب سے جاملے ہیں لیکن اُن کی یادیں ہمارے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور اُن کا خلا شاید کبھی نہ پرُ ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنید جمشید کی سوچ و فکر کو تمام طبقات میں روشناس کروایا جائے تاکہ معاشرے سے تعصب اور فرقہ پرستی کا خاتمہ ہوسکے۔




.
تازہ ترین