• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تودنیامیں روزانہ ہزار وںلاکھوں انسان اس دنیاسے چلے جاتے ہیں، کسی کی بھی وفات یقینا اس کے والدین اورعزیزو اقربا کے لئے دکھ کا باعث ہوتی ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیںجو ایک خلقت کو اداس کرجاتے ہیں۔7دسمبرکو چترال سے اسلام آباد آنے والے پی آئی اے کے بدقسمت طیارے PK-661 کے المناک حادثے میں شہید ہونے والے تمام 47ا فراد کی جانیں بہت قیمتی تھیں اوران کے جاں بحق ہونے پر سبھی کودکھ اورصدمہ ہوا ہے لیکن ان میں ایک نام ایسابھی تھا جوصرف ایک انسان نہیں بلکہ پاکستان کے افق سے ابھرنے والا ایک ستارہ تھا جولوگوں کے دلوںکو ہدایت کی روشنی سے منورکررہاتھا اوروہ ستارہ ’’جنیدجمشید‘‘ تھا۔
جس وقت جنید جمشید شہید موسیقی کی دنیامیں شہرت کی بلندیوںکوچھورہے تھے اوراپنے نغموں کے ذریعے نوجوانوں میں جوش وجذبہ پیدا کر رہے تھے اس وقت بھی وہ خود کسی اورہی منزل کے مسافر تھے۔ ان کی زندگی میں اچانک ایک بڑی تبدیلی آئی اوروہ موسیقی کی دنیاکوخیرباد کہہ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگئے اور دین کی تعلیم کے حصول میں رات دن مشغول ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی خوش گلوئی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حمدونعتیں بھی پڑھنا شروع کردیں اور حمد ونعت میں بھی اپنا دھیما اور منفرد انداز برقرار رکھا۔ جنید جمشید شہید تھوڑے ہی عرصہ میں ایک مبلغ کے درجے پرفائزہو گئے اورشہرشہر،ملکوں ملکوں جاکرلوگوںکودین کی طرف راغب کرنے میں مگن ہوگئے۔جنید دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے تھے اورذاتی نمود ونمائش سے بالاتر ہو کر وہ مختلف سماجی تنظیموں کے فلاحی کاموں اورغریب ومستحق لوگوں کی مددکو بھی دینی فریضہ سمجھ کرکرتے اوردوسروںکو بھی اس کی ترغیب دیتے۔ وہ نوجوانوں کو معاشرے کی تعمیر و ترقی کیلئے نہایت اہم قرار دیتے تھے۔ وہ معاشرے میں پائے جانے والے امیر غریب کے امتیاز، سماجی ومعاشی ناہمواریوں اور انصاف وقانون کے دہرے معیارکو بھی ببانگ دہل برا کہنے لگے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جب ملک میں موجود سیاسی و مذہبی جماعتوں کاجائزہ لیا تو انہوں نے ایم کیو ایم کو اپنی سوچ وفکرسے بہت قریب پایا۔ جنیدجمشیدشہیدسماجی ومعاشی ناہمواریوں اور اسٹیٹس کو کے خاتمے اورمحروم طبقات کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے ایم کیوایم سے بہت متاثر تھے۔ دوسال قبل جب کراچی ایئرپورٹ پر ایک مسافرطیارے کو ایک وفاقی وزیرکے انتظار میں کافی دیرتک پروازسے روکے رکھاگیاتووہ اس وی وی آئی کلچرکے خلاف عوام کی آوازبن گئے۔ اس حوالے سے ایک نجی ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں انہوں نے جوتاریخی گفتگوکی وہ کچھ اس طرح ہے:’’ میرادل نہیں کرتا اب دل دل پاکستان گانے کو… میںکیوں گاؤں؟…کیا ان لوگوں کے لئے؟ تاکہ ہم لوگوںکو موٹیویٹ کریں اور اس غلط سسٹم کے جو بینی فشریز (فائدہ اٹھانے والے ہیں) ہیں… وہ ملک کو لوٹیں۔ آپ ایم کیو ایم کی مثال لیجئے کراچی سے، ایم کیو ایم اس غلط سسٹم کے خلاف ہی توکھڑی ہوئی تھی اورظاہر سی بات ہے کہ غلط سسٹم تو نہیں اجازت دے گا تو وہ قربانیوں پر قربانیاں، قربانیوں پہ قربانیاں دیتی رہی۔
غالباًیہ ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے کہ جنیدجمشیدشہیدنے ایک تبلیغی نشست میں خواتین کی نفسیات پر گفتگوکرتے ہوئے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی مثال پیش کی تواس پر ان کے خلاف ایک طوفان کھڑاکردیاگیا۔ فتوئوں، طعنوں،گالیوںحتیٰ کہ دھمکیوں تک کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ کچھ عرصہ کے لئے منظرسے غائب ہو گئے۔یہ چند ماہ قبل کی بات ہے، رات کاوقت تھا، میں ایم کیوایم انٹرنیشنل سیکرٹریٹ میں ڈیوٹی پر تھاکہ ٹیلیفون بورڈپر موجود ساتھی نے بتایاکہ جنیدجمشید صاحب، الطاف بھائی سے بات کرناچاہتے ہیں۔ میں نے خود ان سے بات کی اور عاجزی سے سلام کیا تو انہوں نے ایک شفقت بھری آوازمیں ’’ وعلیکم السلام ‘‘ کہا۔ میںنے جنیدجمشیدسے اپنا تعارف کرایاکہ میں مصطفیٰ عزیزآبادی ہوں، الطاف بھائی اس وقت موجود نہیں ہیں، ان کے لئے کوئی پیغام ہوتوحاضر ہوں۔ انہوں نے نام سن کر نہایت غمزدہ لہجے میں کہا ’’مصطفیٰ بھائی ! میںبہت تکلیف میں ہوں، بڑے ذہنی کرب سے گزر رہا ہوں، دل پربہت بوجھ محسوس کررہاہوں، کسی طرح میری الطاف بھائی سے بات ہوجائے توشایددل کابوجھ ہلکاہوجائے کیونکہ اس وقت وہی ایک ایسی ہستی ہیںجو مجھے سمجھ سکتے ہیں ‘‘۔ میں نے ان کی کیفیت محسوس کرتے ہوئے عرض کیا ’’آپ تسلی رکھیں، میں الطاف بھائی تک آپ کاپیغام پہنچاکرجلدازجلد آپ کی بات کراؤں گا ‘‘۔ انہوں نے اپنالندن کاعارضی فون نمبر دیا اور کہا کہ میں رات گئے تک جاگ رہاہوں، جس وقت بھی فون کریں گے، میں حاضرہوں۔ ان کافون بندہواتو میں کچھ سوچ میں پڑ گیا، ابھی چندہی منٹ گزرے تھے کہ الطاف بھائی کے فون کی گھنٹی بجی، میں نے بھائی کوجنید جمشید کاپیغام دیا۔ الطاف بھائی نے کہاکہ انہیں فوراً ملاؤ۔ میں نے جنیدجمشیدکوفون ملایا اور بتایا کہ الطاف بھائی آپ سے بات کریں گے۔ الطاف بھائی نے جیسے ہی ہیلو کہا تو انہوں نے گلوگیر آوازمیںکہا ’’ السلام علیکم الطاف بھائی ‘‘۔ الطاف بھائی نے وعلیکم السلام کہہ کرابھی صرف اتناہی کہاتھا ’’ آپ کیسے ہیں ؟ یہ سنتے ہی وہ زاروقطاررونے لگے۔ الطاف بھائی نے انہیں تسلی دی، وہ ذراسنبھلے توکہا ’’ الطاف بھائی میں نے آج تک کسی کوتنگ نہیں کیا، میں نے سب کے لئے اچھاکہا، سب کیلئے بھلائی چاہی، میں نے کسی کوبرابھلانہیں کہا، میں تو لوگوںکودین کی باتیں بتارہاہوں، انہیں اچھائی کا درس دے رہاہوں پھرمیرے ساتھ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں؟یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ رونے لگے۔ ماحول بہت رنجیدہ ہوگیا۔ الطاف بھائی نے انہیں ایک بارپھر تسلی دی اورکہا’’ اس راہ میں یہ توہوتاہے، کچھ عرصہ آپ لندن میں ہی قیام کریں اورجب تک میں آپ کونہ کہوں،آپ پاکستان نہ جائیے ‘‘۔وہ یہ سن کر رونے لگے اور الطاف بھائی کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہا ’’ الطاف بھائی آپ سے بات ہوگئی، میرادل بہت ہلکاہوگیا ‘‘۔ انہوں نے الطاف بھائی سے اپنے دل کی اوربھی بہت سی باتیں کیں جوان کی امانت ہیں۔نجانے کیامجبوریاں تھیں کہ وہ چندروز بعد لندن سے واپس پاکستان چلے گئے۔ وہ جب پاکستان گئے توایک روزکراچی ایئرپورٹ پر بعض شرپسندوں نے ان پر حملہ کیا۔ الطاف بھائی کواس واقعہ پر بہت افسوس ہوا۔
جنید جمشید شہید ہر چیز سے بے نیاز ہو کر ایک بار پھر لوگوں کو دین کی طرف بلانے میں لگ گئے۔ اس وقت الطاف بھائی سیکرٹریٹ میں موجود ساتھیوں سے موجودہ حالات پر گفتگو کر رہے تھے کہ اسی دوران ٹی وی پر بریکنگ نیوز آئی کہ پی آئی اے کا طیارہ لاپتہ ہو گیا ہے۔ بھائی نے فوراً کہا ’’اللہ خیر کرے‘‘۔ تھوڑی دیربعد طیارے کی تباہی کی خبریں آنے لگیں اور ساتھ ہی یہ المناک خبربھی آئی کہ طیارے میں جنید جمشید اور ان کی اہلیہ بھی سوار تھے۔ طیارے کی تباہی اور تمام مسافروں کے جاں بحق ہونے پر تو الطاف بھائی کو افسوس تھا ہی لیکن جیسے ہی طیارے کے حادثے میں جنید جمشید اور ان کی اہلیہ کی شہادت کی خبر آئی تو ان کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ چند منٹ خاموش رہنے کے بعد انہوں نے جنید جمشید کی شہادت پر اپنے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ایک فرشتہ صفت انسان آج دنیا سے چلا گیا، اللہ تعالیٰ جنید جمشید اور طیارے کے حادثے کے تمام شہیدوں کی مغفرت فرمائے، انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا کرے، وہ شہید ہیں اور شہید کبھی مرا نہیں کرتے۔ الطاف بھائی نے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ جنید جمشید شہید سمیت تمام شہیدوں کے درجات بلندکرے اور ان کے گھر والوں کو بھی یہ صدمہ برداشت کرنے کاحوصلہ اورصبر عطا کرے۔ آمین!




.
تازہ ترین