• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرانسیسی ـکمانڈر ژواین ویل جو بذات خود صلیبی جنگوں میں شریک رہا، اس نے 13ویں صدی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان لڑائی کی سرگزشت بیان کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ کوـ ’’پامردی مومن‘‘ پہ بھروسہ تھا اور مسلمان ’’مشینوں ‘‘ پر انحصار کیا کرتے تھے۔ مسیحی محض دعائوں کے سہارے برسرپیکار تھے اور مسلمان جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس ہو کر لڑتے۔ ایک لڑائی کے دوران جب مصری فوج نے منجنیقوں کے ذریعے فرانسیسیوں پر آگ برسانا شروع کی توانہوں نے اس بلا سے نجات پانے کے لئے کیا طرزعمل اختیارکیا؟ ژو این ویل بیان کرتا ہے :’’ہمارا لارڈ والٹر جو ایک اچھا نائٹ تھا، اس نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں زندگی کا سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے اگر ہم نے ان برجیوں کا نہ چھوڑا، اور مسلمانوں نے ان میں آگ لگا دی تو ہم بھی جل کر خاک ہو جائیں گے لیکن اگر ہم ان برجیوں کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں تو ہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں۔ ایسی حالت میں خدا کے سوا کوئی نہیں جو ہمارا بچائو کر سکے۔ میرا مشورہ آپ لوگوں کو یہ ہے کہ جونہی مسلمان آگ کے گولے پھینکیں، آپ سب گھٹنوں کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہمارے مدد کرے‘‘ژو این ویل نے فرانسیسی بادشاہ لوئس کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ جب منجنیق سے گولے پھینکے جانے کے بعد سپاہیوں کی چیخ و پکار کی آواز آتی تو ہمارا ولی صفت بادشاہ روتے ہوئے دست دعا بلند کرتا اور کہتا،خدائے مہربان میرے آدمیوں کی حفاظت کر۔ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا اور خدا نے کس کی مدد کی، یہ کوئی سربستہ راز نہیں۔
زمانے نے کروٹ بدلی، یورپ نے اس شکست و ریخت سے سبق سیکھا اور ضعیف الاعتقادی کی راہ ترک کر کے معقولیت کا راستہ اختیار کیا مگرمسلمان ایام زوال میں رفتہ رفتہ دوا کے بجائے صرف دعاکے قائل ہوتے چلے گئے۔ اٹھارویں صدی میں جب نپولین نے مصر پر یلغار کی تو مسلمانوں کے فرماں روا مُراد بک نے تمام علمائے کرام کو جامع الازہر میں جمع کیا اور ان سے مشاورت کی کہ دشمن کے حملے سے بچنے کے لئے کیا دفاعی حکمت عملی اختیار کی جائے؟ تمام جید علمائے کرام نے متفقہ طور پر رائے دی کہ بلائوں کو ٹالنے کے لئے صحیح بخاری سے بڑھ کر کوئی شے کار آمد نہیں ہو سکتی،لہٰذادشمن کو نیست و نابود کرنے کے لئے صحیح بخاری کا ختم شروع کروا دینا چاہئے۔ خوش الحان قاری صحیح بخاری کا ورد جاری رکھے ہوئے تھے اور ختم پاک کی تقریب مکمل نہیں ہوئی تھی کہ نپولین کی فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں۔ شیخ عبدالرحمان الجبرتی بیان کرتے ہیں کہ اہرام کی لڑائی کے بعد انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کر رکھا تھا تو امیر بخارا نے رعایا کو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے شاہی فرمان جاری کیا کہ مدارس اور مساجد میں ختم خواجگان پڑھا جائے تاکہ ملک پر حملہ آور تمام بلائیں دفع ہو جائیں۔ جیسے جیسے روسیوں کی قلعہ شکن توپوں کی گھن گرج بڑھتی گئی ویسے ویسے ختم خواجگان کے لئے جمع ہونے والے اہل ایمان کے ذکر و اذکار کی آواز بلند تر ہوتی چلی گئی۔ ’’پامردی مومن‘‘ اور ’’مشینوں‘‘ کی اس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا، یہ بھی کوئی پوشیدہ راز نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے۔
جب سے اے ٹی آر طیارے کو حادثے سے محفوظ رکھنے کے لئے قربانی دی گئی ہے تب سے ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہے اور کالے بکرے کی قربانی پر بھانت بھانت کے تبصروں کاسلسلہ جاری ہے۔ ان تاریخی واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پی آئی اے کے عملے نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا۔ پی آئی اے پر ایک عرصہ سے نحوست کے سائے منڈلا رہے ہیںاور انواع و اقسام کی بلائیں اس قومی ادارے کی ترقی و خوشحالی کے درپے ہیں،ایسے میں اگر پی آئی اے کے عملے نے کالے بکرے کا صدقہ دیکر رَد بلا کی اپنی سی کوشش کر لی تو کیا بُرا کیا؟صدقہ بلائوں کو ٹال دیتا ہے، اس بات میں ابہام اور تشکیک کی کیا گنجائش ہے بھلا؟ مجھے تو بس اس بات پر افسوس ہو رہا ہے کہ بلائیں ٹالنے کا یہ تیر بہدف نسخہ پی آئی اے کو پہلے کیوں نہیں سوجھا۔ چلیں دیر آید درست آید کے مصداق اب یہ حقیقت مترشح ہو ہی گئی ہے تو کیوں نہ تمام ریڈار اور دیگر آلات بیچ ڈالیں، بڑی بڑی تنخواہیں اینٹھنے والے ایوی ایشن کے ماہرین سے نجات حاصل کرلیں اور کالے بکرے کی قربانی کے ساتھ ساتھ ہر طیارے کے ساتھ کالا کپڑا اور ایک ٹوٹی ہوئی جوتی بھی باندھ لیں تاکہ طیارے نظر بد سے بھی محفوظ رہیں اور حادثے کا شکار بھی نہ ہوں۔ ہر مسافر کو طیارے میں سوار ہوتے وقت تسبیح دی جائے تاکہ پرواز ناہموار ہونے پر ذکر و اذکار اور ورد کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ اور اگر یہ حکمت عملی کامیاب رہے تو محض پی آئی اے ہی کیوں دیگر قومی اداروں میںبھی اسے بروئے کار لایا جائے۔
ہمارے ہاں بیویوں سے متعلق طنز و مزاح کی روایت بہت پرانی ہے۔ چند برس ہوتے ہیں ایک دوست نے ازراہ تفنن لطیفہ سنایا تھاکہ بلاشبہ صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے مگر ماسوائے اس کے جو آپ کے نکاح میں آچکی ہو۔ مگر جو لوگ ردِبلا پر یقین رکھتے ہیں،ان کے لئے میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ صدقہ بیشک دیگر بلائوں اور آفات کو ٹال دیتا ہو مگر نااہلی اور کام چوری کی وہ بلائیں جو انسان خود پالتا پوستا ہے، کسی کالے بکرے کو ذبح کرنے سے جان نہیں چھوڑتیں بلکہ ان سے نجات پانے کے لئے ان بلائوں کے حلقوم پر ہی چھری پھیرنا پڑتی ہے۔ دعائیں تب ہی کارگر ثابت ہوتی ہیں جب موثر دوا کا اہتمام کیا گیا ہو۔ تقدیر ان کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے جو تدبیرپر یقین رکھتے ہیں اور خدا صرف ان کی مدد کرتا ہے جو اسباب کے ذریعے اپنی مدد آپ کے قائل ہوتے ہیں۔

.
تازہ ترین