• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کا خاتمہ۔ سات سال پہلے مشرف کو دیا گیا مشورہ,,,,,حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی

آج میں اپنا ایک سات سال پرانا کالم مطبوعہ 24مئی 2002 یہاں نقل کررہاہوں۔ ملاحظہ فرمایئے:
بدھ (22مئی) کے روز پاک ہند کشیدگی کے پس منظر میں صدر مشرف نے تین اہم مشاورتی اجلاس منعقد کئے اور میراخیال ہے کہ ان سے حکومت کو داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے اپنی سوچ میں کچھ نہ کچھ یکسوئی (Clarity) لانے میں مدد ملی۔ پہلا اجلاس جو تین گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہا۔ ایڈیٹروں اور صحافیوں کے ساتھ تھا۔ گفتگو کا آغاز میں نے کیا اور کہا کہ وزیرخارجہ نے عالمی طاقتوں کے رویئے کے بارے میں ایک بہت ہی حوصلہ افزا جائزہ (Rosy picture) پیش کیاہے لیکن خوش قسمتی سے صدر نے خارجہ سیکرٹری کو اظہار خیال کی دعوت بھی دے دی جنہوں نے وزیرخارجہ کی پیش کردہ یکطرفہ تصویر کو متوازن بنا دیا۔ میں نے عرض کیاکہ حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی ہندوستانی وفد واشنگٹن گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ 70ایسے نئے کیمپوں کے قیام کے ثبوت اپنے ساتھ لے کر گیا ہے جو ان کے دعوے کے مطابق آزاد کشمیر میں کام کر رہے ہیں۔ میں نے صدر صاحب سے پوچھا کہ آیا ہندوستان کے ان دعوؤں میں کوئی صداقت ہے اور کیا آپ دوٹوک لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنی 12جنوری کی تقریر میں پاکستان (اور آزادکشمیر) کی سرزمین کو شدت پسندی کی کارروائیوں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کا جو اعلان کیا تھا اس پر لفظاً اور معناً عمل ہوا ہے اور ہو رہا ہے؟ صدر نے میر ے سوال کا براہ راست جواب دینے کی بجائے الٹا مجھ سے کہا کہ میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں کہ کیا حریت پسندوں کی حمایت کلی طور پر بند کردی جانی چاہئے۔ میں نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر کہا کہ آپ کی تقریر کے تمام تقاضے من و عن پورے کئے جانے چاہئیں۔ یوں میں نے صدر کے سوال کا جواب دے دیا لیکن ان کے ایک ضمنی سوال پر مجھے مزید وضاحت کرنی پڑی کہ کم از کم اس وقت کسی کو پاکستان (اور آزاد کشمیر) کی سرزمین سے کسی بھی قسم کی شدت پسند کارروائی کے لئے مقبوضہ کشمیرجانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور کچھ عرصے کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد صرف سیاسی تدابیر سے جاری رہے تو اس میں کوئی ہرج نہ ہوگا۔ صدر نے کہا کہ یہ انتہائی اہم سوال ہے اور ابھی اس پر مزید بات کریں گے۔
ایک محترم اور سینئر مدیر نے اس مرحلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں کسی قیمت پر کشمیری حریت پسندوں کی مدد سے گریز نہیں کرنا چاہئے، ہاتھ نہیں روکنا چاہئے۔ آپ اس عزم اور اس عہد پر قائم رہنے کا اعلان کریں تو ہم آپ کے پیچھے قوم کا اتفاق رائے پیدا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ مختصر بحث کے بعد صدر نے اس سینئر مدیر سے دوٹوک سوال کیا: ”کیاآپ جنگ چاہتے ہیں؟“ جواب تھا: ”کچھ بھی ہو ہم اپنی بساط کی حد تک حریت پسندوں کی مدد کا عمل روک نہیں سکتے۔ آپ نے روکا تو اس ملک کے عوام کبھی آپ کو معاف نہیں کریں گے۔ ٹی وی کے ایک ممتاز کمپیئر نے صدر سے کہا کہ بطور قوم ہمارے تین مخمصے یا متناقضے (Paradoxes) ہیں جن میں سے ایک یعنی افغان یا طالبان پالیسی کا مخمصہ ہم نے حل کرلیا ہے۔ دوسرا مخمصہ کشمیری حریت پسندوں کی حمایت کی نوعیت اور کیفیت اور کمیت کاہے، اسے ہم حل نہیں کر پا رہے۔ تیسرا مخمصہ داخلی حوالے سے ہے۔ آپ وردی میں منتخب صدر کے طورپر کام کرنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ہے یا تو آپ جمہوریت کو چلنے دیں اور یا پھر صحیح معنوں میں ایک فوجی حکمران کے طور پر کام کریں۔ صدر نے کہا کہ ہماری افغان یا طالبان پالیسی جو 11ستمبر سے پہلے تھی اس کا بھی ایک جواز اور افادیت تھی۔ حالات بدلے تو ہم نے ان کے تقاضے سمجھ کر اقدام کیا۔ داخلی حوالے سے کوئی حقیقی مخمصہ موجود نہیں۔ ہم نے مارشل لا نہیں لگایا۔ ہم جمہوریت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مجھے ایک فوجی ڈکٹیٹر کی طرح کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جہاں تک آپ کے بیان کردہ دوسرے مخمصے کا تعلق ہے اس پرہم آج بات کر رہے ہیں۔ عمومی بحث کے اختتام پر ایک انگریزی روزنامے اور ہفت روزے کے مدیر نے میرا حوالہ دے کر بات شروع کی اور کہا کہ انہوں نے بہت توجہ طلب اور اہم باتیں کی ہیں پھر انہوں نے اپنے مدلل اور نپے تلے انداز میں وہی باتیں کیں جو میں نے آغاز ِکار میں عرض کی تھیں۔
اب بحث کو سمیٹنے کی صدر صاحب کی باری تھی۔ انہوں نے کہاکہ امریکی (اور دوسرے) ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے کہنے پر آپ سے یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ کی سرزمین اب تک مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی امداد کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ یہ ہماری اپنی معلومات ہیں اور جب آپ ایسا کرنا بند کردیں گے تو ہمیں خود پتہ چل جائے گا۔پھر ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ ہندوستان پرفوجی کارروائیاں روکنے کے لئے دباؤ ڈال سکیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ صد ر نے کہا کہ میں جنگ سے بالکل نہیں ڈرتا لیکن مخصوص حالات میں مصالحت کے تقاضے دیکھ کر چلنا پڑتاہے۔ اس پر میں نے لقمہ دیاکہ آپ اپنی 12جنوری کی تقریر پر اس کے الفاظ اور اس کی روح کے مطابق عمل کریں۔ صدر نے زبان سے کچھ نہیں کہا لیکن (انگریزی محاورے کے مطابق) صدرکی جسمانی زبان کہہ رہی تھی کہ میری گزارش پر ان کا ردعمل مثبت تھا۔ انہوں نے پھر کہاکہ اگرچہ ہم جنگ کے لئے پوری طرح تیار ہیں لیکن اس سے بچنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے فوراً سوال اچھالا: ”کیا ہم جنگ سے بچنے کے لئے ”کافی“ کچھ کر رہے ہیں؟“
Are we doing enough to avoid war?
صدر فوراًبولے : ”حقانی صاحب نے کلیدی سوال کر دیا۔ فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ”کافی“ (Enough) سے کیا مراد ہے۔ کتنا کچھ کافی سمجھا جائے گا کتنا کچھ ناکافی۔ یہی سارا مسئلہ ہے۔“ اس کے بعد حکومت ِپاکستان نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سرزمین کو کسی صورت دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔
مبصرین نے سلامتی کونسل اور کابینہ کے مشترکہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اس اخباری بیان کو بہت اہمیت دی ہے کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے بھی شدت پسند کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی حتیٰ کہ کشمیر کے نام پر بھی نہیں اور کشمیر کاز کے لئے پاکستان کی حمایت اخلاقی، سیاسی اور سفارتی میدانوں تک محدود رہے گی۔ میری دانست میں یہ بیان ان لفظوں میں نہ آتا اگر مدیروں سے صدر کی صبح کی گفتگو نہ ہوئی ہوتی۔ یہ انتہائی اہم بیان ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ صحافیوں اورسیاسی کارکنوں کی ایک قابل لحاظ تعداد اس بیان پر سخت ناخوش ہوگی لیکن میں اسے بدھ کے روز کی مشاورتوں کا ایک مثبت نتیجہ سمجھتا ہوں اور میری رائے میں اس سے صورتحال کی سنگینی میں نمایاں کمی آسکتی ہے اور شاید جنگ بھی ٹل جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے اس تبصرے سے کئی لوگ ناراض ہوں گے لیکن میں نے سوچھ سمجھ کر یہ الفاظ لکھے ہیں۔
نوٹ: 24مئی 2002 کو شائع ہونے والا میرایہ کالم کافی طویل تھا لیکن آج کل چونکہ ہم ”جنگ“ میں لمبے کالم شائع نہیں کر رہے اس لئے میں نے مذکورہ کالم کا ایک قابل لحاظ حصہ کاٹ دیاہے لیکن ضروری گفتگو بہرحال اب شائع ہونے والے کالم میں آگئی ہے۔

تازہ ترین