سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں اس عزم کا اظہار کہ عدلیہ خوف اور مصلحتوںکا شکار ہوئے بغیر اپنے فرائض ادا کرے گی ، فی الحقیقت ملک کے روشن اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے کیونکہ کمزور اور طاقتور سب پر آئین اور قانون کا یکساں نفاذ اور کامل عدل ہی وہ عمل ہے جو معاشرے کو بے چینی، منافرت، احساس محرومی اور انتشار سے بچاتا ہے ۔لاہور ہائی کورٹ بار کی سلور جوبلی کی ایک تقریب سے گزشتہ روز اپنے خطاب میں نامزد چیف جسٹس نے قوم سے وعدہ کیا کہ دنیاوی فائدے کیلئے آخرت قربان نہیں کریں گے، فرائض کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتیں گے،عدالتوں کا وقار بحال کریں گے،فیصلوں میں شفافیت نظر آئے گی اور لوگ دیکھیں گے کہ شفافیت ہوتی کیا ہے۔ انہوں نے عدالتی نظام کی خامیاں دور کرنے اور نظام بدلنے کی کوشش کی یقین دہانی کراتے ہوئے آئین اور قانون کے محافظوں پر زور دیا کہ ہڑتالوں سے اجتناب کرکے پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں۔انہوں نے عدالتوں کے ماحول کی بہتری کیلئے سب کے احترام کو ضروری قرار دیا اور متنبہ کیا کہ جو ایسا نہیں کرے گا وہ اپنے عہدے پر نہیں رہے گا۔ دیانت داری کے ساتھ محنت اور فرائض کی درست طور پر ادائیگی کو کامیابی کا اصل راستہ قرار دیتے ہوئے ملکی عدلیہ کے نئے سربراہ نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ شارٹ کٹس وقتی فائدے کا ذریعہ بن سکتے ہیں مگر منزل تک نہیں پہنچاتے۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں سچائی، ایمانداری اور حق گوئی کی تربیت ان کے والد سے ورثے میں ملی ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ تربیت سول کورٹ میں ٹوٹے بنچ اور کرسی پر ہوئی ہے جبکہ آج کے نوجوان شارٹ کٹس کی تلاش میں رہتے ہیں۔نامزد چیف جسٹس کا یہ خطاب حقیقتاً پیشہ قانون کے وابستگان کیلئے بلندمنزلوں تک پہنچنے کے یقینی راستے کی مکمل نشان دہی کرتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالتی نظام میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ کسی کیلئے بھی تعلقات، سفارش، خوشامد، رشوت اور ایسے ہی دوسرے شارٹ کٹس کے ذریعے آگے بڑھنا ممکن ہی نہ رہے ، تمام تقرریاں صرف اہلیت ہی کی بنیاد پر عمل میں آئیںاور اہلیت میں للّٰہیت اور خوف خدا کو بھی لازماً شامل رکھا جائے۔ اگر عدلیہ میں ہر سطح پر ایسی شخصیات منصف کے فرائض انجام دیں جو نامزد چیف جسٹس کی طرح دنیا کے فائدوں کیلئے آخرت کو قربان نہ کرنے کا عزم رکھتی ہوں تو عدلیہ ہی نہیںمعاشرے میں ہر شعبہ زندگی سے خیانت، بے ضمیری ، بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ یقینی ہوجائے گا۔ احتساب کا بے لاگ اہتمام ملک کو کرپشن کی لعنت سے نجات دلانے کیلئے ناگزیر ہے اور عدلیہ آئین اور قانون کی بالادستی اور عدل کے دائمی اصولوں پر مبنی مکمل غیرجانبدارانہ فیصلے کرکے اسے یقینی بناسکتی ہے۔ایسے تمام ضوابط جو مقتدر طبقات کیلئے بدعنوانی کو ممکن اور آسان بناتے ہیں لازماً تبدیل کیے جانے چاہئیں ۔ حکومتیں اس پر راضی نہ ہوں تو عدلیہ کو ملک کے مفاد میں اس کیلئے ازخود کارروائی کرنی چاہیے۔اس حوالے سے ایک اہم نشان دہی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے نیب کے سربراہ کے تقرر کے حوالے سے کی ہے۔ انہوں نے نیب کی جانب سے پلی بارگین یعنی کرپشن کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے ان سے لوٹی گئی رقم کا کچھ حصہ وصول کرکے انہیں آزاد چھوڑ دینے کے طریق کار پر سخت گرفت کی اور اسے چوروں کو راستہ دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب حکومت اور اپوزیشن مل کر نیب کے سربراہ کا تقرر کریں گے تو احتساب کیسے ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کا تقرر سپریم کورٹ کے ذریعے ہونا چاہیے اور نیب کو مکمل انتظامی اور مالی خود مختاری ملنی چاہیے۔وزیر داخلہ کا یہ موقف بلاشبہ نہایت باوزن اور معقول ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میںپارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں ملک میں بامعنی احتساب اور بے لاگ انصاف کو یقینی بنانے کو اپنا مشن بنائیں گی کیونکہ قومی ترقی اور خوش حالی کی یہ لازمی شرط اور اہم ترین ضرورت ہے۔
.