• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کا شاندار چہرہ اور روشن مستقبل کی نویدتھیں۔27دسمبر2007ء کو انہیں انتہائی سفاکی کے ساتھ لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔ اس سانحہ عظیم کو نو برس ہو رہے ہیں لیکن بی بی شہید کی یاد آج بھی تروتازہ اور عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 27 دسمبر کو دنیا بھر میں ان کے یومِ شہادت پر ان کی سیاسی و قومی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ وہ محبِ وطن قومی اور عالمی رہنما تھیں۔ جنہوں نے ملکی سیاست پر دیرپا اثرات مرتب کئے اور سیاسی وابستگی کے باوجود ہر کسی نے ان کی شہادت پر آنسو بہائے تھے۔ اور آج بھی انہیں اسی محبت و احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ بی بی شہید کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اپنے عظیم اور قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے وقت سے لے کر انہوں نے کٹھن ترین حالات کا سامنا کیا۔ ان کی زندگی قیدوبند اور جدوجہد کی داستان بن گئی تھی۔ ایک نہتی لڑکی نے جس ہمت و حوصلے سے مارشل لاء کے جبر اور ظلم و استبداد کا مقابلہ کیا وہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی جدوجہد پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جائے گا لیکن اس طویل سفر میں ان کی شخصیت کو درپیش مشکلات اور مسائل کے علاوہ بیوی اور ماں کے کردار کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی شخصیت کے اس پہلو کو اجاگر کیا جاسکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نہایت وفاشعار اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کی قید کے دوران ان کیلئے بھرپور مہم چلائی اور دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔
بی بی بہت نرم دل خاتون تھیں وہ دوسروں کا درد محسوس کرتی تھیں اپنے شوہر سے وفاشعاری کو انہوں نے آخری دم تک نبھایا۔ آصف علی زرداری پر بدعنوانی کے مختلف الزامات لگائے گئے تو انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ طلاق لےلیں۔ لیکن بی بی نے ان تمام مشوروں کو مسترد کردیا۔ حکومت کے ایک ایلچی نے بھی بی بی شہید کو ایسا ہی مشورہ دیا تھا۔ تو بی بی نے اسے یہ جواب دیا تھا کہ کیا آپ میری زندگی تباہ کرنا چاہتے ہیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنا گھر اور بچوں کا مستقبل برباد کردوں؟ ان کا دل بھرآیا تھا۔ انہیں اس بات کا بہت دکھ پہنچا کہ یہ لوگ ان سے آخر کیا چاہتے ہیں۔دراصل بی بی ایک وقت پر کئی محاذوں پر لڑرہی تھیں۔ ایک طرف ان کی خانگی زندگی کو خطرہ تھا، دوسری طرف ان کی سیاسی بقا دائو پر لگی ہوئی تھی۔ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ بدعنوانی کے الزامات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مشکلات کی اصل وجہ ان کے شوہر آصف علی زرداری ہیں مگر بی بی نے ان تمام الزامات اور مقدمات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اسی لئے دو مرتبہ سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں پیش ہوئیں اور نیکلس کے ترشے ہوئے افسانے کا بھانڈا بھی پھوڑا۔ اور جیولر نے خود عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ اس نے بی بی کو کبھی نہیں دیکھا۔ بی بی شہید یہ کہتی تھیں کہ تمام مقدمات ان کے شوہر کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ ہیں۔آصف علی زرداری پر منشیات کا ایک مقدمہ بنایا گیا اور ایک شخص سے اس ضمن میں اعتراف بھی کرایا گیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے بعدازاں خود تسلیم کیا کہ سب جھوٹ تھا۔
اپنے بچوں کی ماں اور باپ بن کر پرورش کرنا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے شوہر کی سلامتی کیلئے ہر لمحے دعا گو رہنا وہ دلگداز مراحل ہیں جن سے گزرنے والی عورت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ بی بی ان تمام مراحل سے گزریں اور صبروشکر کی پیکر ثابت ہوئیں۔ ان تمام معاملات میں بی بی کا کردار ایک وفاشعار بیوی اور ذمہ دار ماں کے طورپر سامنے آیا۔
بی بی شہید اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو تعلیم مکمل کئے بغیر سیاست میں نہیں آنے دینا چاہتی تھیں۔ بی بی کی نظر میں تعلیم بلاول کی پہلی ترجیح تھی اور اس پر انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی سیاست کا آغاز کر دیا ہے اور پارٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ ان کی سیاست میں آمد سے ملکی سیاست میں ہلچل کا سماں پیدا ہوا ہے۔ اور اس وقت وہ پورے ملک میں پارٹی کی تنظیم نو کررہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بلاول کو ان لوگوں کا ساتھ نہیں ملےگا جو ان کی والدہ کے ساتھ تھے لیکن اسے یہ شرف حاصل ہے کہ وہ شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے، اب لوگوں کی توقعات بلاول سے ہی وابستہ ہیں۔ جس طرح عوام کو بی بی شہید کی قیادت پر غیرمتزلزل اعتماد تھا۔ اسی طرح والدہ کے وارث ہونے کی حیثیت سے لوگوں کا اعتماد اب چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر ہوگا۔ یہ وہی اعتماد ہے جو بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوا تھا۔ بعض لوگ اسے سیاسی وراثت کہتے ہیں لیکن یہ اس سیاسی شعور اور عوام دوستی کا تسلسل ہے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی عوام کو دیا۔ اب بلاول اسی سیاسی شعور اور عوامی قیادت کی علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مجھے یقین ہے وہ شہید بی بی کے سیاسی جانشین ثابت ہوں گے۔ کیونکہ انہوں نے شہید بی بی کے افکار،نظریات اور حالات کا بغور مطالعہ کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بی بی شہید کو یہ زبردست خراج عقید ت پیش کیا ہے کہ ’’میں شہید بی بی کا بیٹا ہوں، سچائی کی سیاست کرتا ہوں اور اپنے الفاظ کا پاس کرتا ہوں۔‘‘یہاں یہ ذکر ناگزیر ہے کہ 2002ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی تھی۔ چنانچہ پارٹی کے اہم رہنمائوں نے اقتدار کی کشش سے مغلوب ہو کر جنرل مشرف کی حکومت میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس سے بی بی شہید کو شدید دھک پہنچا تھا۔ بی بی کو یہ اندیشہ تھا کہ 2007ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی جیت گئی تو اقتدار کی چمک سے 2002ء والی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ لہٰذا بی بی نے سیاسی فراست سے کام لیا اور پاکستان واپس آ کر انتخابی مہم میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یوں انہوں نے اپنی جان کو درپیش خطرات کو پس پشت ڈال کر اپنے عظیم والد کی سیاسی وارث ہونے کا حق ادا کیا اورملک و قوم کی خاطر جان قربان کر دی۔

.
تازہ ترین