• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نوازشریف کی خواہش یا پس پردہ بندوبست کے عین مطابق اور بلاول بھٹو کے دمادم مست قلندر کے بالکل برعکس جناب آصف علی زرداری نے ایسا ٹرن لیا کہ سب حیرت میں گم ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بلاول بھٹو نے حکومت کے خلاف بڑے بلند بانگ دعوے کئے اور اپنے چار مطالبات پیش کئے کہ اگر ن لیگ نے 27دسمبر تک ان کے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے تو پھر دما دم مست قلندر ہوگا۔ انہوں نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا بارہا اعلان کیا تھا۔ سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو بالعموم بڑی ناپ تول کر اور سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں انہوں نے بھی ایک روز پہلے کہا کہ کل ہم ایسا اعلان کریں گے جو ہوائوں کے رخ موڑ دے گا۔ ہم تندیٔ باد مخالف سے ڈرنے یا گھبرانے والے نہیں۔ جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد یکدم ن لیگ کے غبارے میں بہت ہوا بھر گئی ہے۔ چند وزراء پیپلز پارٹی کے خلاف جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ وزیراعظم کے ایما پر ایسا کررہے ہیں۔ اب ہم ن لیگ کو سبق سکھائیں گے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار نے نیب کے خلاف جو بیان دیا ہے اس کے بعد میاں نوازشریف کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اس ساری فضا میں زرداری صاحب کا یہ کہنا کہ وہ 27دسمبر کو نہایت اہم اعلان کریں گے۔ اس سرپرائز کا سبھی کو بہت انتظار تھا تاہم گزشتہ روز زرداری صاحب نے فی الواقع بہت بڑا سرپرائز لوگوں کو دیا جو 27 دسمبر کو ہونے والے دما دم مست قلندر سے بڑی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے تھے۔ ان لوگوں کو یہ سن کر بڑی مایوسی ہوئی کہ مخالفت، مفاہمت میں بدل گئی اور زرداری صاحب نے اپنے ہاتھوں سے دما دم مست قلندر، لانگ مارچ، پاناما لیکس اور حکومت مخالفت کے بلاولی غبارے سے ہوا نکال دی اور ہوائوں کے رخ پھیرنے کے دعوے کرنے والے اب یہ اعلان کررہے ہیں کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی بقول غالب؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا
زرداری صاحب نے عوامی کھپت کے لئے چند بڑھکیں تو ضرور لگائی ہیں مگر میسج یہی ہے کہ میں اور بلاول بھٹو عوام کے پاس نہیں ایوان میں آپ کے پاس آرہے ہیں۔ ہم ان کالم نگاروں میں سے نہیں جن کی اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی ہوتی ہے اور انہیں وہاں سے پل پل کی خبریں آتی ہیں۔ ہم نےجو اندازہ لگانا ہے وہ قرائن سے لگانا ہے ہم نے تو اسی وقت اندازہ لگا لیا تھا کہ بدلے ہوئے حالات میں زرداری صاحب نے واپسی کا جو اعلان کیا ہے اس کے پیچھے یقیناً کوئی نہ کوئی مفاہمت و موافقت موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کا زرداری صاحب کے دور اقتدار میں بالکل مکوٹھپ دیا گیا تھا۔ اب بلاول بھٹو نے چند ماہ کی زبردست کوشش اور کاوش کے بعد پارٹی میں قدرے جان ڈال دی تھی اور پارٹی کے مایوس کارکنوں نے کسی قدر انگڑائی بھی لی تھی مگر زرداری صاحب کے دوستانہ فیصلے سے کم از کم پنجاب میں تو یہ پیغام گیا ہے کہ اب ان تلوں میں کوئی تیل نہیں۔ اب پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو کی پارٹی نہیں بلکہ آصف علی زرداری کی پارٹی ہے۔ بحیثیت باپ مجھے افسوس ہوا کہ زرداری صاحب نے اپنے اڑتے اورآگے بڑھتے ہوئے بیٹے کے پر کاٹ دیئے ہیں اور اس پر اعتماد کرنے یا اسے آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے وہ خود میدان عمل میں اتر آئے ہیں۔ نوجوانوں پر جب سو فیصد اعتماد کیا جاتا ہے تو پھر وہ بڑے بڑے کارنامے کر دکھاتے ہیں اور اگر انہیں بات بات پر روکا اور ٹوکا جائے تو پھر ان کے جذبے سرد پڑ جاتے ہیں ان کی قوت ارادی متزلزل ہو جاتی ہے اور ان کی گروتھ رک جاتی ہے۔ جب کوئی نوجوان مسلسل اور براہ راست اپنے باپ کے زیر نگرانی ہوتا ہے تو پھر وہ خوداعتمادی سے محروم ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے فیصلے نہیں کر سکتا اور یوں بھی یہ کسی سابق صدر کے شایان شان نہیں کہ وہ اسمبلی کا الیکشن لڑے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی آئی جی ریٹائر ہونے پر تھانیدار لگنے کی آرزو کرے۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ بلاول بھٹو زرداری جب میدان عمل میں اترے گا تو وہ اپنے عالمی وژن اور سیاسی سوجھ بوجھ کے اعتبار سے بے نظیر بھٹو کی تصویر ہوگا مگر منظر عام پر آکر ان کی پرفارمنس نے اس تاثر کی نفی کردی۔ اس اعتبار سے فاطمہ بھٹو نے ابھی سے اپنے آپ کو ایک ویژنری شخصیت کے طور پر منوایا ہے۔ زرداری صاحب اور بلاول بھٹو زرداری کو علم ہونا چاہئے کہ گزشتہ نصف صدی سے پیپلز پارٹی غریب کی غربت کو جس انداز میں ایکسپلائٹ کرتی چلی آرہی ہے اب ایسا نہیں ہوسکے گا۔ اب روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بے روح اور بے جان ہو چکا ہے۔ اب پیپلز پارٹی کوئی نیا جال لے کر آئے گی تو بات بنے گی۔ گزشتہ روز کے خطاب میں زرداری صاحب نے پانامالیکس اور بلاول کے چار مطالبات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ انہوں نے بلاول کے دما دم مست قلندر کی نفی کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو مفاہمت کا میسج دیا ہے ۔اس یو ٹرن سے جہاں بلاول بھٹو کی ساکھ انتہائی مجروح ہوگی وہاں پنجاب میں اٹھتی ہوئی پیپلز پارٹی کو بہت بڑا سیٹ بیک ہوگا ۔بلاول بھٹو کا ایک مثبت پوائنٹ یہ تھا کہ اس کی کمر پر ماضی کا کوئی بوجھ نہ تھا اور اس کے پاس ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی بھرپور سیاست کا اثاثہ تھا۔ زرداری صاحب کی سرپرستی اور قدم قدم پر موجودگی سے بلاول کو زرداری صاحب کے 5 سالہ دور حکومت کا بوجھ اٹھاکر چلنا پڑا تو وہ ہانپ جائیں گے اور ان کی عوامی پذیرائی میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہو جائے گی۔ اب پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکنان کی تحریک انصاف میں جانے کی رفتار تیز تر ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کی اس تازہ ترین مفاہمتی پالیسی کے بعد فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر کے سیاست میں آگے بڑھنے کے مواقع مزید بڑھ گئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان پیپلز پارٹی کی اس فرینڈلی صورت حال سے سندھ اور پنجاب میں کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زرداری صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اپوزیشن جماعتیں مفاہمت سے نہیں مخالفت سے آگے بڑھتی ہیں۔

.
تازہ ترین