• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب آپ سے کیا پردہ، ہمیں فارسی اور سرائیکی بہت پسند ہیں۔ اگرچہ ہم ان زبانوں پر اتنی بھی دسترس نہیں رکھتے، جتنی واپڈا بجلی کی ترسیل پر یا عدالتیں انصاف کی فراہمی پر رکھتی ہیں، البتہ الفاظ کی نشست و برخاست، برجستگی، طرز تکلم و طرز تخاطب اور جملوں، محاوروں اور اشعار کا جامعیت سے بھرپور اختصار ہمیں بہت بھاتا ہے۔ اگر مقرر فارسی یا سرائیکی لہجے میں موتی پرونے والی کوئی خوش اطوار سی خاتون ہو تو واللہ، اس کی گلفشانی کی پھوار ہمیں براہ راست اپنے قلب پر محسوس ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ہم دستیاب مال سے بھی اپنا ٹھرک پورا کر لیتے ہیں، چاہے وہ آغا پٹھان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ’’سماع وعظ کجا، نغمہ رباب کجا‘‘
آغا افغانی کی مادری زبان فارسی ہے۔ وہ کئی سالوں سے ہمارے علاقے میں مزدوری کر رہا ہے۔ بوڑھا پٹھان اَن پڑھ ہے مگر سرمست حافظ شیرازی کی زبان بولتا ہے تو وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک دن سخت گرمی میں ہمارے گھر کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ پسینے میں شرابور تھا اور نقاہت اور تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ہم نے اس کی خیریت دریافت کی ’’حال شما خوب است؟‘‘ (کیا تمہارا حال اچھا ہے؟) اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’خوب نیست، جوانی رفت‘‘ (اچھا نہیں، جوانی گزر گئی ہے) ہماری کج فہمی کہتی ہے کہ ایسے مختصر ترین مگر کوزے میں دریا بند کرنے والے جملے شاید ہی کسی زبان میں ملتے ہوں۔ ایسا ہی غالب کا ایک شعر یاد آیا ’’دریغا کہ عہد جوانی گزشت /جوانی مگو، زندگانی گزشت‘‘ آغا کی اردو بھی فارسیت زدہ ہے۔ شام اندھیرا ہونے سے پہلے گھر روانہ ہوتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہتا ہے ’’میرے سائیکل میں چراغ نہیں‘‘ ہمارے ملک میں کچھ پرانے لوگ کہتے ہیں ’’چشم ما روشن، دل ماشاد‘‘ ایران میں ہم نے دیکھا کہ لوگ مہمان کے سامنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور قدرے جھک کر انہی معنوں میں مختصراً ایک لفظ بولتے ہیں’’چشم‘‘... یہ لفظ اپنے اندر خلوص اور وسعت کا جہاں سمیٹے ہوتا ہے۔ وہ لوگ مٹھاس سے لبریز لہجے میں کہتے ہیں ’’تو نورچشم ما ای‘‘ شاید اسی لئے فارسی کو ’’قند پارسی‘‘یعنی شکر کی طرح میٹھی زبان کہا جاتا ہے۔
دسمبر کی اس خنک اور خشک شب ہمیں کچھ بھولی بسری خوش گفتار خواتین کی نرماہٹ سے آراستہ اور رس گھولتی، نشاط انگیز فارسی گفتگو اس لئے یاد آئی ہے کہ جناب انوؔر مسعود نے جیو کے ’’جرگہ‘‘ میں کہا ہے کہ فارسی ہمارا ہزار سالہ حافظہ ہے، جسے چھوڑ دینے سے اردو پر ہماری گرفت کمزور ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا ’’اردو کو بچانے کے لئے ہمیں دوبارہ فارسی سے رجوع کرنا پڑے گا‘‘ خوب است! لیکن ہمارے خیال میں اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا.....تیز رفتار ترقی کے اس سفر میں ہماری تہذیبی اقدار یوں گرد گرد ہوئی ہیں کہ اب یہاں نوشت و خواند، اہل علم کی صحبتیں، صاحب مطالعہ اور اہل زباں جیسے الفاظ اور اعمال بطور فیشن تو تھوڑے بہت استعمال ہوتے ہی ہیں مگر عملی طور پر متروک اور قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
آج ہم نے برصغیر میں فارسی کی تاریخ بیان نہیں کرنی۔ مختصراً یہ عرض کرنا ہے کہ یقیناً ہمارا حافظہ ہزار سالہ ہو گا لیکن اب یہ حافظہ اتنا لاغر ہو گیا ہے کہ ہزار سال تو دور کی بات، اس میں تو سات دہائیاں قبل کی سب سے ضروری بات بھی محفوظ نہیں کہ محمدعلی جناح کس طرح کا ملک چاہتے تھے؟ اپنی بوسیدہ اقدار سے جان چھڑاتے ہوئے ہم نے کمپیوٹر کے عہد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ایسی قیامت خیز چال چلی کہ ’’کلاغی تگ کبک را گوش کرد، تو خودش را فراموش کرد‘‘ یعنی کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ امروز فارسی اور اردو کی مہار ہمارے ایسے ’’ایں چیست؟ پکوڑے تلیست‘‘ برانڈ ’’اہل علم‘‘ لکھاریوں اور اینکرز کے ہاتھ ہے، جو ’’داشتہ بکار آید‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ’’داشتہ کار پر آتی ہے‘‘ موزوں سمجھتے ہیں۔ اردو معلی پر دسترس کی بھی وہی مثال کافی ہے کہ استاد نے طلبا سے پوچھا کہ اس جملے میں گرامر کے لحاظ سے کون سا زمانہ پایا جاتا ہے ’’بچے نقل کررہے ہیں‘‘ شاگرد نے کہا ’’امتحان کا زمانہ‘‘ ٹی وی چینلز پر ہمارے برادران و ہمشیرگان نے گیسوئے اردو سنوارتے ہوئے اسے فارسی سے پاک کر کے انگریزی کا ایسا تڑکہ لگایا ہے کہ ریختہ کی عظمت بال کھولے بین کر رہی ہے۔ خدا معلوم یہ زبان اور اقدار کا کیسا ارتقا ہے کہ اب ہمیں واعظ شیریں لساں، خزینہ علم وحکمت اور منبع فصاحت وبلاغت تو تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں مگر فصاحت اور حکمت تو کجا، خطبات سے رتی برابر شیرینی برآمد کرنا محال ہے۔ بس شعلہ بار لہجے ہیں اور دشنہ و خنجرکا انداز بیاں ۔
آج ہم نے بات فارسی کی وسعت اور مٹھاس تک محدود رکھنی تھی مگر بموجب نوشتہ تقدیر کے کڑواہٹ کی طرف نکل گئی۔ ہمیں اکثر ملکی حالات پر فارسی کے محاورے اور کہاوتیں یاد آتی ہیں۔ کب اور کیوں یاد آتی ہیں؟ یہ آپ نے خود اخذ کرنا ہے۔ سنئے ’’آنچہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد ازخرابی بسیار‘‘ (دانا جو کام کرتا ہے، کرتا ناداں بھی وہی ہے لیکن نقصان اٹھانے کے بعد) آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک است‘‘ (جس کا دامن صاف ہے، وہ محاسبے سے خوفزدہ کیوں ہے؟) ’’برزبان تسبیح و دردل گاوخر‘‘ (ظاہر میں نیک، دل میں لالچ) ’’ہرکہ درکان نمک رفت،نمک شد‘‘ (جو بھی نمک کی کان میں گیا، نمک ہو گیا) ’’ماتم زدہ را عید بود ماتم دیگر‘‘ (مفلس کی خوشی بھی ماتم سے خالی نہیں ہوتی)
’’آب آید،تیمم برخاست‘‘ (پانی مل جائے تو تیمم کی اجازت نہیں) اور ان الفاظ کا ہمیں مطلب تو معلوم نہیں مگر ان میں ردم کمال کا ہے کہ’’جواب جاہلاں، باشد خموشی‘‘(شیخ سعدی اختصار اور جامعیت کا بادشاہ ہے۔ صرف دو جملے نقل کرتے ہیں کہ ’’بخشیدم،گرچہ مصلحت ندیدم‘‘ (معاف کر دیا اگرچہ مجھے اس میں اچھائی نظر نہیں آتی) اور وہ جو بادشاہ نے ہزار دینار کی تھیلی ننگ دھڑنگ فقیر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ دامن پھیلا درویش، تو اس نے کیاجواب دیا؟....’’دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘ (میں دامن کہاں سے لائوں ،میرے تن پر تو لباس ہی نہیں) انوؔر مسعود صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری کو بھی یاد کیا ہے،سو ہم اقبال کے ان سدا بہارفارسی اشعار پر بات ختم کرتے ہیں:
زمن بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی ؐرا
(میری طرف سے صوفی اور ملا کو سلام کہ انہوں نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچایا لیکن پیغام کی تاویل انہوں نے کچھ اس طرح کی کہ خود خدا، جبرئیل اورمصطفیﷺ بھی حیران رہ گئے)

.
تازہ ترین