کراچی(امدادسومرو)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرداری کو آئندہ منعقد ہونے والے شہداد کوٹ کے این اے۔204 اور نوابشاہ کے این اے ۔123 کے ضمنی انتخابات میں کوئی واک اوور نہیں ملے گا کیوں کہ پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی(ف) اور سندھی قوم پرست جماعت، سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔قمبر شہداد کوٹ لاڑکانہ ڈویژن کی این اے۔204 اور نوابشاہ(شہید بےنظیر آباد) کی این اے۔123سندھ کے سابق وزیر قانون ایاز سومرو اور آصف زرداری کی بہن عذرا پیچوہو نے 28 دسمبر کو خالی کی تھی، کیوں کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے انتخابات میں حصہ لے کر قومی اسمبلی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔پی ٹی آئی چیف عمرا ن خان، جے یو آئی(ف) کے جنرل سیکریٹری مولانا راشد سومرو اور ایس یو پی کے چیئرمین سید جلال محمود شاہ نے اعلان کیا ہےکہ وہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے خلاف اپنے امیدوار دونوں حلقوں میں سامنے لائیں گے۔پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمرا ن خان خود الیکشن مہم شروع کریں گے۔پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹی اطلاعات ذوالفقار ہالیپوٹو نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے سندھ تباہ ہوگیا ہے اور سندھ کی عوام بہتر متبادل کی تلاش میں ہے، عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی اس قابل ہے کہ وہ متبادل قوت کے طور پر صوبے میں سامنے آئے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں حلقوں میں امیدواروں کو میدان میں اتارنے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ادھر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے جنرل سیکریٹری روشن بریرو نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی جماعت دونوں حلقوں میں اپنے امیدواروں کو سامنے لائے گی۔ان کے مطابق، سندھ کی عوام پیپلز پارٹی سے تنگ آچکی ہے اورقوم پرست ان کے متبادل ہیں۔اس نمائندے نے جے یو آئی (ف) کے رہنماء مولانا راشد سومرو سے رابطہ کرنے کی ہرممکن کوشش کی تاہم انہوں نے اپنا نقطہ نظر دینے سے گریز کیا۔پی پی پی کے رہنماء امتیاز شیخ جنہوںنے حال ہی میں شکار پور سے ضمنی انتخاب جیتا ہے، دی نیوز کو بتایا کہ کسی بھی امیدوار کا ضمنی انتخاب جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے، تما م جماعتیں صرف اپنی پارٹی کی مشہوری کے لیے اپنے امیدوار میدان میں لارہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں سیٹیںپیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین واضح فرق سے جیتیں گے۔معروف سیاسی تجزیہ کار علی قاضی نے دی نیوز کو بتایا کہ آئندہ ضمنی انتخابات پر تجزیہ کرنے سے پہلےہمیں عام انتخابات اور شکار پور کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔قمبر شہداد کوٹ این اے ۔ 204میں پی پی پی مخالف ووٹ80 ہزار سے ذائد تھے اور ایاز سومرو صرف 52 ہزار ووٹ حاصل کرسکے، جب کہ نوابشاہ میں پی پی پی مخالف ووٹ تقریباً50 ہزار تھے۔جب کہ شکار پور کے ضمنی انتخابات میں پی پی پی مخالف ووٹ 27 ہزار سے ذائد تھے۔جے یو آئی (ف) کے امیدوار راشد سومرو، جن کا تعلق لاڑکا نہ سے ہے وہ شکارپور کی عوام کے لیے اجنبی تھے، انہوں نےشکار پور شہر میں اپنے حریف پی پی پی کے امیدوار امتیاز شیخ سے ذائد ووٹ حاصل کیے۔ایک سوال کے جواب میں کہ کیا حریف جماعتیں اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین کو کڑا وقت دے سکیں۔علی قاضی کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ عوام کو پی پی پی مخالف ووٹ دینے کے لیے کیسے قائل کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ، پیپلزپارٹی کو کڑاوقت دے سکتی ہے۔2013 کے عام انتخابات میںاین اے۔204کے حلقے سے سومرو نے 50128 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔جب کہ پی ایم ایل فنکشنل کے مہتاب اکبر راشدی اور آزاد امیدوار معظم علی خان نے بالترتیب 32006 اور 28745 ووٹ حاصل کیے تھے۔پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم انہیں صرف 4936ووٹ ملے تھے۔این اے۔213 کے حلقے سے 113119 ووٹوں سے ڈاکٹر پیچوہو نے مقابلہ جیتا تھا۔متحدہ قومی موومنٹ کے عنایت علی رند نے 33874 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ پی ایم ایل (ف) کے سید ذاہد حسین شاہ نے 25223 ووٹ لیے تھے۔