وہ بر ِ صغیر میں فلمی موسیقی کے بانی اوراوّلین تخلیق کارتھے ۔ بھائی چند بورال، کھیم چند پرکاش، پنکج ملک، انیل بسواس اور ماسٹر غلام حیدرکی ترتیب دی ہوئی موسیقی سنیں تو ان کی صلاحیتوں اور زرخیز ذہن کی تخلیقی رسائی پر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اب ہم اُن جیسے فن کار کبھی نہیں دیکھ پائیں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیقی کاایک وقت ہوتا ہے ، اُن اساتذہ کا بھی ایک وقت تھا۔ جب اُن کا دور گزرا تو حالات تبدیل ہوچکے تھے ، ہندوستان تبدیل ہوچکا تھا، سینما کی سلونی رت جاچکی تھی، اور اس تبدیلی کو بہتر کہہ لیں یا خراب تر، آنے والے نئے موسیقاروں نے ابتدائی فلمی موسیقی کے کلاسیکی انداز سے ہٹ کر تیزدھنیں ترتیب دینا شروع کیں۔ جو بے ہنگم شورشراباہم آج سنتے ہیں، وہ اپنے ایک حوالے سے پرجوش ہوسکتا ہے ۔ ’’بے بی ڈول‘‘ اور ’’چٹیاں کلائیاں‘‘ کو یوٹیوب پر لاکھوں افراد پسند کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ آپ رقص کرسکتے ہیں۔ ان میں بجلی سی بھری ہوتی ہے ، لیکن وہ ذہن پر دیر پا تاثر نہیں چھوڑتے ۔ اُن کا لطف لمحاتی، اور جب وہ لمحہ گزرجاتا ہے تو جوش سرد پڑجاتا ہے ۔ پھر ہم اگلے گیت کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد اس کی لہر بھی اترجاتی ہے۔
تاہم 1930 ، 1940 اور1950 کی دہائیوں میںلافانی موسیقی تخلیق ہوئی۔ اس کا جادو مسلّم ۔ اسے سنتے ہوئے آپ اس کی سحر انگیز ی سے نہیں نکل سکتے ۔ جب شام کے سائے دراز ہوتے ہیں یا رات اپنی زلفیں بکھیرتی ہے اور آپ ماضی کی یادوں میں گم، تنہائی اور اداسی کا شکار ہوں کہ کیا کیا مواقع آئے اور ہاتھ سے نکل گئے اور جیسا کہ عمرخیام نے کہا کہ قسمت کے قلم کے لکھے کو نہ آنسو دھو سکتے ہیں اور نہ ہی نیکی اور پرہیز گاری تبدیل کرسکتی ہیں، تو صرف اس سنہرے دور کی رسیلی موسیقی ہی ایسی اداس کیفیت میں دل ودماغ کے بنددریچوں پر دستک دے کر اُنہیں کھول سکتی ہے ۔ مجھے کہنے دیجیے کہ وہ دور اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ آپ آئٹم گیت دیر تک نہیں سن سکتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی کوکین یا کسی اور نشہ آور چیز کے زیر ِا ثر ہو تو اور بات ہے ۔ ایسا نہیں کہ پوپ موسیقی انسان کو پاگل کردیتی ہے ، لیکن اس سے دماغ ڈھیلا ضرور ہوجاتا ہے ۔ دراصل پوپ میوزک ڈانس کے لئے ہے ۔ اس کے بغیر ایک نائٹ کلب کیا ہوتا ہے ؟لیکن آپ کندن لعل سیگل ، جو تان سین کے بعد بر ِ صغیر کے سب سے بڑے گلوکار تھے ، کو دیر تک سن سکتے ہیں، اور وقت کے قدموںکی چاپ ساکت ہوجاتی ہے ۔
گیت اتناہی اچھا ہوتا ہے جتنی اس کی دھن، اور یہ وہ مقام ہے جہاں عظیم موسیقاروں کا جادوسرچڑھ کر بولتا ہے ۔ اُنھوںنے ناقابل ِ فراموش دھنیں تخلیق کیں، دیومالائی موسیقی ترتیب دی، چنانچہ جب سیگل یا خورشید یا ثریاکا ذکر ہو تو خالص موسیقی کی بات فلم تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس کا اثر تمام زمانوں پر ہوتا ہے ۔ شیکسپیئر نے اپنی شاعری کے بارے میں کیا کہا تھا؟’’نہ کوئی سنگ ِ مرمر، نہ ہی شہزادوں کی سنہری یادگاریں ان شعروں سے زیادہ دیر پا ہوں گی ۔ ‘‘ بہترین موسیقی بھی اسی طرح جادواں ہوتی ہے ۔ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ بیتھوون تمام زمانوں کیلئے تھے۔ جب، جیسا کہ ہم یقین رکھتے ہیں ، نظامِ ہستی لپیٹ دیا جائے گا، قیامت برپا ہوگی توکیا عجب کہ اُس اہم موقع پر بیتھوون کی موسیقی مستعار لی جائے ۔ ویگنر کی موسیقی دھماکہ خیز ہے ، لیکن قیاس ہے کہ موقع کی مناسبت سے بیتھون کی موسیقی بہتر رہے گی ۔
انٹر نیٹ تمام زمانوںکی عظیم ترین ایجادات میں سے ایک ہے ۔ یہ تمام وسائل اور امکانات کے سراغ ہمارے ہاتھ تھما دیتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کے حقیقی طلسمات کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ فی الحال آپ تجزیہ یا ریاضی کے عجائب کوبھول جائیں، اس کے ذریعے آشکار ہونے والی موسیقی کی دنیا انسان کوورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔ گزرے ہوئے وقت کی طنابیں ہمارے ہاتھ آجاتی ہیں۔ جب میں جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھ رہا تھا تو ہمارے پا س موسیقی کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی تھا، اور یہ بھی خوش قسمتی تھی کیونکہ ہر گھر میں ریڈیو بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہم ریڈیو سیلون اور آل انڈیا ریڈیوسنتے ، اور پھر ہمار ے اپنے ریڈیوپروگرامز بھی برے نہ تھے ۔ تاہم ہمارے پاس مغربی موسیقی سننے کا کوئی ذریعہ نہ تھا ۔ چنانچہ آج قسمت کی دیوی کی مہربانی دیکھیں، موسیقی کی دنیا ایک کلک کے فاصلے پر ، اور آپ اس دنیا میں جتنا آگے بڑھتے جائیں ، یاد کے بے نشاں جزیروںکی صدا نئی منزلوں کا پتہ دینے لگتی ہے ،یہاں تک کہ آپ اس میں کھو جاتے ہیں۔
آپ ان عظیم ماسٹر ز کے گانے آسانی سے سن سکتے ہیں۔ بس ایک لیپ ٹاپ ، انٹر نیٹ اوراچھے سے اسپیکرزآپ کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ انیل بسواس صرف عظیم موسیقار ہی نہیں ، وہ موسیقی کی وضاحت کرنا بھی جانتے تھے ۔ آپ اُن کی موسیقی میں کھیم چند پرکاش کے گیت سنیں۔ اُن کی سیگل کی فلم ’’تان سین ‘‘ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی ، جس کے گیت ، جیسا کہ ’’سپت سورن تین گرام‘‘ اور ’’دیا جلائو‘‘،اور ’’محل ‘‘ کے لئے لتا کا شہر آفاق گانا، ’’آئے گا آنے والا‘‘ سنیں۔ شروع میں لتا منگیشکر کاشمار صف ِاوّل کی گلوکاروں میں نہیں ہوتا تھا۔ اُس وقت ثریا، شمشاد بیگم اور بے شک نورجہاں کا راج تھا۔ لتاجی کی آوازکو بہت باریک خیال کیا جاتا تھا، لیکن انیل بسواس، ماسٹر غلام حیدر اور کھیم چند پرکاش نے اُن کی حوصلہ افزائی کی، اور ’’آئے گا آنے والا ‘‘ کے ساتھ ہی دنیا ئے موسیقی نے جان لیا کہ ایک سپرا سٹار نے جنم لے لیا ہے ۔
اگر نورجہاں کو دریافت کرنے کا سہرا کسی کے سر جاتا ہے تو وہ ماسٹر غلام حیدر تھے ۔ اُن کی ہدایت میں نورجہاںنے فلم گل بکائولی کے لئے 1939میں مدہم سروں میں ’’شالا جوانیاں مانے ‘‘ گایا۔ اُس وقت نورجہاں کی عمر بارہ برس تھی ۔ لتاجی نے فن کی دنیا میں کچھ دیر بعد قدم رکھا ۔مردوں میں سیگل اور اور نسوانی آوازوں میں نوجوان لتا جی کا جادو بر ِ صغیر کے سروں پر راج کرنے لگا۔ کہاجاتا ہے کہ وہ ، جبکہ ابھی سپراسٹار نہیں بنی تھیں، سیگل سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ مکیش اور کشور کمار جیسے تمام گلوکار سیگل کی آواز کے جادو کے زیر ِ اثر تھے، تاہم انیل بسواس نے مکیش اور کشور، دونوں کو بتایا کہ وہ اپنا انداز پیدا کریں۔ مکیش نے ایک گانا ریکارڈ کرانا تھا لیکن وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے نکل گئے اور کچھ دوستوں کے ساتھ مے نوشی میں غرق ہوگئے ۔ انیل بسواس اُن کی تلاش کو نکلے ، ڈھونڈ نکالا اور (کچھ کے مطابق) اُن کے منہ پر تھپڑ رسید کیا ۔ مکیش اسٹوڈیو واپس آئے اور اپنا شاہکار گیت گایا۔۔۔’’دل جلتا ہے تو جلنے دے ‘‘۔ جہاں تک عظیم طلعت محمود کا تعلق ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ اُن کی آواز میں لرزش تھی۔ گلوکار کے لئے یہ ایک خامی تصور کی جاتی ہے ۔ تاہم انیل بسواس نے اُنہیں بتایاکہ پریشان ہونے کی بجائے وہ آواز کی لرزش کو اپنی پہچان بنا لیں۔
کے ایل سیگل کو کس نے دریافت کیا ؟میراخیال ہے کسی نے نہیں۔ قسمت اُن کی تلاش میں تھی ۔ اُن کے والد صاحب ایک تحصیل دار تھے ، جو بعد میں ایک کامیاب ٹھیکے دار بن گئے ، ایک دراز قامت دبلے پتلے لڑکے کو کس طرح برداشت کرسکتے تھے جو نہ اسکول میں اچھی پڑھائی کرسکا اور نہ اُسے کوئی اور کام آتا تھا اور جو کسی اور ہی دنیا میں کھویا رہتا تھا؟یقیناً والد صاحب سیگل کو شفقت بھری نظروں سے ہر گز نہیں دیکھتے ہوں گے ۔
سیگل نوعمر ی میں ہی گھرسے نکل آئے اور پہلے انڈین ریلوے میں ٹائم کیپر اور پھر رمنگٹن ٹائپ رائٹرز میں سیلز مین کی ملازمت کی ۔ کلکتہ میںاُن کے دوست ہریش چند بالی عظیم موسیقار آر سی بورل کو جانتے تھے ۔ بالی نے آرسی بورل سے درخواست کی کہ وہ اس ’’پنجابی لڑکے ‘‘ کی ٹرائی لیں۔ بنگالی یقینا ًپنجابیوں کے بارے میں، خاص طور پر فن کے حوالے سے بہت اچھی رائے نہیں رکھتے ،اس لئے بورل نے سیگل کو نظر انداز کردیا۔ لیکن جب سیگل کو موقع ملا تو اسٹوڈیو میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بورل نے اس سے پہلے ایسا گانا کبھی نہیں سنا تھا۔ باقی تاریخ ہے ۔
.