مکاروں، جاہلوں، مفاد پرستوں، بے روزگار دانشوروں کی بات دوسری، وطن عزیزمیں کون انکاری کہ دھرنا پارٹ ون (2014) اور دھرنا پارٹ ٹو (2016)، نادیدہ قوتوں کے مخصوص مفادات کے تحفظ کی کوشش تھی۔ حیف طاہر القادری اور عمران خان فقط مہرہ تھے۔ مضبوط و مقبول اپوزیشن لیڈر کا عوامی اعتماد کو آگے بیچ ڈالنا، ایک سانحہ ہی۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کونسی نئی بات کہی؟ مظہر عباس صاحب، سوموار، یکم ستمبر 2014، قومی اسمبلی سامنے، ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں من و عن یہی کچھ فرمایا۔ جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس گیم چینجر تھی۔ ’’جھوٹ پلس‘‘، عمران خان کی بات میں وزن نہیں۔ آج جو کچھ کہا اظہر من الشمس، شواہد اتنے کہ مٹانے، ناممکن۔ فرق اتنا، دو سال پہلے گرما گرم فضا کو یخ بستہ بنایا تو آج تکرار نے دسمبر میں گرمی پیدا کر دی۔ ہمہ یاراں، ہاتھ سینکنے کو دل للچا گیا۔
دوجڑواں بھائی عمران خان اور قادری صاحب لفظ چبائے بغیر، سینہ پھلائے کھلے عام امپائر کی مداخلت اور نواز شریف کی رخصتی کی نوید روزانہ کی بنیاد پر دیتے، اتراتے رہے۔ حضور مردانگی کا تقاضا، توجیحات تاویلات پیش کرنے کی بجائے، ڈٹ جائیں۔ اگست 2014کے پہلے دس دنوں میں طاہرالقادری صاحب سے تین تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ قادری صاحب کا یقین، اعتماد، اعتبار، ’’نوازشریف قصہ پارینہ‘‘، ٹھاٹھیں مارتا نظر آیا۔ میری بار بار نشاندہی، ماضی کی ناکامیوں کی اہمیت، جناب قادری صاحب کسی کو خاطر لانے پر تیار نہ تھے۔ خان صاحب کیلئے کالم ’’تحریک انصاف بند گلی میں‘‘ لکھا، سینئر فوجی افسروں کو قائل کیا کہ ناکامی و نامرادی مقدر رہے گی، کوئی سننے پر تیار نہ تھا۔ ماضی کی مثالیں دیں، جب اسٹیبلشمنٹ کئی موقعوں پر مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ 1988میں بے نظیر کو اقتدار میں روکنے کیلئے کیا کچھ نہ کیا، ناکامی رہی۔ 1999میں فوجی انقلاب کے بعد نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے سارے جتن بے کار رہے۔ 2002میں مسلم لیگ (ق) سادہ اکثریت لینے میں ناکام رہی۔ قوتوں کا دماغ ساتویں آسمان پر، ’’50ہزار افراد نے اگر وزیر اعظم ہائوس کا محاصرہ کیا تو استعفیٰ کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو گا‘‘۔ جواباً دو ٹوک الفاظ میں عرض کیا کہ آپ بزور بازو تو نواز شریف کو نکال سکتے ہیں، استعفیٰ نہیں ملے گا۔ آج نواز شریف 5سال پورے کرنے کو۔ موجودہ بحث کے پیرائے میں، جنرل طارق خان کا ایک واٹس ایپ بلاگ منظم انداز میں وائرل بن کر سوشل میڈیا پر چھا چکا ہے۔ مختصر تحریر میں جنرل صاحب کی فریسٹریشن دیدنی، غصہ نمایاں ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی تضحیک میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مخالفین یہ تاثر دے رہے ہیںکہ وہ اپنے سابقہ ادارے کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں ہیں۔ ادارہ کو دوبارہ ملوث رکھنے کی آرزو، حسرت، حکم، تقاضا ہے جو قوم چار مارشل لا بھگت چکی ہو، پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ دیکھ چکی ہو، 50 کی دہائی میں آدھے درجن وزراء اعظم کی معزولی سہار چکی ہو۔ 90کی دہائی میں چار باری وزرائےاعظم کی برخاستگی نبیڑ چکی ہو۔ پچھلے دس سال، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طاقتور حکومتوں کی بیچ چوراہے درگت ملاحظہ فرما چکی ہو۔ یہ بحث کہ سازش تھی یا نہیں، ہنسی مذاق ہی تو ہے۔ حضور وطن عزیز میں سازشی کھیل پرانا اور آزمودہ ہے۔ پیر و مرشد کا ترانہ بانگ درا، ہمارے ہر واقعے، سانحے پر فٹ بیٹھتا ہے۔
یہ عناصر کا پرانا کھیل، یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمنائوں کا خوں!
اے میری بدقسمت قوم، آپ کے ساتھ واردات، دھوکا دہی اور اوقات میں رکھنے پر وطنی اشرافیہ متحد و متفق ہے۔ سیاسی لیڈروں کی ذاتی زندگی، قومی معاملات، وطنی پالیسیوں، قوم کی دخل اندازی، دخل درمعقولات سمجھی جاتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 63/62ہو یا اردو زبان کا نفاذ، مقتدر طبقہ، اشرافیہ، دھجیاں اڑانے میں، سب متفق ہیں، جبکہ قوم کو اپنے معاملات میں دخل اندازی سے تاکیداً باہر رکھا جاتا ہے۔ بدکردار، چور، ڈاکو، بدمعاش،سب کا ایکا ایک دوسرے کو کیوں پکڑیں گے؟ انگریزی دان طبقہ اگر 19کروڑ لوگوں کو برابر کی تعلیم دے گا یا اردو نافذ کرے گا تو حکومت کس پر کرے گا؟ عوامی نمائندگان کے ہر معاملے میں آرٹیکل 62/63 فکرمند، جانچنے پرکھنے کے لئے کڑی کسوٹی اور معیار مقرر کرتا ہے۔ وطن عزیز میں 62/63کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ عمران خان نے مخدوم جاوید ہاشمی پر زبان دراز رکھتے ہوئے صریحاً غلط بیانی اور بازاری زبان کیوں استعمال کی؟ ’’جاوید ہاشمی ذہنی توازن کھو چکے‘‘، گھٹیا زبان، سخت مذمت کرنا ہو گی۔ کل ہی الیکشن کمیشن نے ایسی زبان درازی پر عمران خان کو سخت ترین الفاظ میں تنبیہ کی ہے۔ پارٹی میٹنگز میں دھرنا پارٹ ون اور دھرنا پارٹ ٹو پر پارٹی رہنمائوں اور کور کمیٹی کو اسی سازشی تبدیلی کی نوید سناتے رہے، جھوٹ پلس کیسے؟ ’’جھوٹ پلس‘‘ کے مقابلے میں مخدوم جاوید ہاشمی کے ’’الزامات پلس‘‘ نے چھکے چھڑوانے ہی تھے۔ کوئی صاحب فہم شخص قرب وجوار میں ہوتا تو مشورہ ایک ہی رہتا کہ ’’جاوید ہاشمی کا بال بیکا نہیں ہونا جبکہ جاوید ہاشمی سے پنگا جناب کے لئے (سیاسی) جان لیوا ثابت ہو گا‘‘۔ انتہائی معتبر اور غیر متنازع دانشور جناب سہیل وڑائچ نے کل رات شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں من وعن اسکرپٹ 2014کے ایک ایک حرف کی تصدیق کی، ’’اپریل، مئی 2014کو سازش کا نقطہ آغاز بتایا اور ایک ایک مرحلہ کو بمطابق اسکرپٹ قرار دیا، البتہ آخری مرحلہ حکومت کو گرانا شاید اسکرپٹ کی ناکامی رہا ہو یا سرے سے حصہ ہی نہ ہو‘‘، بتایا۔
عمران خان، دلجمعی سے کبھی یکم اگست تا 31اگست تک (2014) اپنی تقاریر اور بیانات سنیں، پڑھیں۔ پتہ چل جائے گا کہ ’’جھوٹ پلس‘‘، زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک تقابلی جائزہ ضروری ہے۔ 24دسمبر 2011کو جاوید ہاشمی نے کراچی آ کر، تحریک انصاف میں شمولیت کرنا تھی۔ جمعہ 23دسمبر کو مسلم لیگی قیادت کو بھنک پڑ گئی۔ جاوید ہاشمی کو ’’اغوا‘‘ کر کے خواجہ سعد رفیق اپنے گھر لے گئے۔ جہاں شریف خاندان کی خواتین مع دیگر رہنما گھنٹوں دو زانو رہے۔ رونا دھونا، منت ترلے، جتن، واسطے کسی طور کام نہ آئے۔ میں اس وقت کراچی میں عمران خان کے ساتھ تھا، عمران خان سمیت ہماری حالت دیدنی تھی۔ عمران خان ذہنی تنائو میں ہر ایک سے الجھ رہا تھا۔ ایک ہی فقرہ بار بار دہرایا، ’’جذباتی بلیک میلنگ ہاشمی کو ڈھیر کر دے گی‘‘۔ ہر بار حوصلہ دیا، جاوید ہاشمی چٹان ہے، ارادے باندھ لے تو بہادر آدمی جان پر کھیل جائے گا، ارادہ نہیں ٹوٹنے پائے گا۔ اٹل جاوید ہاشمی رکاوٹوں کو توڑتا، پھلانگتا بالآخر کراچی اپنے وقت پر پہنچ گیا۔ اہم بات، تحریک انصاف میں شمولیت سے پہلے جاوید ہاشمی آخری کئی مہینوں سے نواز شریف کے ساتھ مختلف شہروں میں دورے بھی کر رہے تھے اور کھلے عام نواز شریف پر تنقید بھی۔ ن لیگ کی حوصلہ مندی کہ آخری چند ہفتوں میں نواز شریف کی موجودگی میں عوامی جلسوں، پارلیمنٹ میں نواز شریف پر تنقید کے باوجود، جاوید ہاشمی کو پارٹی میں رکھنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا گیا۔ ملتی جلتی صورتحال، جاوید ہاشمی 31اگست 2014تک، ایک بار بھی نہیں، اشارۃً کنایتہ ًبھی، عمران خان کو کبھی بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ پہلی دفعہ 31اگست 2014، اسلام آباد پریس کلب آ کر چند فقروں میں اختلافی مدعا بیان کیا کہ ’’کنٹینرز اندر پی ٹی آئی قیادت بشمول عمران خان، طے تھا کہ ہم ڈی گرائونڈ سے آگے نہیں جائیں گے، یہی ہمارا وعدہ تھا۔ خلاف ورزی ہوئی، جو نہیں ہونا چاہئے تھی‘‘۔ ایک لفظ فالتو نہ تھا۔ چند گھنٹے بعد ’’امپائری مدد‘‘ کے نشے سے سرشار، ٹھاٹھیں مارتی رعونت اور تکبر، عمران خان اپنے رات کے خطاب میں مخاطب ہوئے، ’’ہاشمی! آج سے میری اور تمہاری راہیں جدا ہیں‘‘۔ ہاشمی نے یکم ستمبر 2014اگلے دن تفصیلی پریس کانفرنس کر ڈالی، عمران کی رعونت کے جواب میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ کے ردعمل میں۔ بہادر، آزاد جاوید ہاشمی طالع آزمائی کے سامنے ہمیشہ کی طرح ڈٹا نظر آیا۔ جاوید ہاشمی کا ڈٹنا، تمام سازشیں ڈھیر کر گیا۔ عمران خان کو سمجھنا ہو گا، خامیوں، کمزوریوں اور غلط فیصلوں کو ٹٹولے بغیر، سیاست میں پنپنا ناممکن رہے گا۔
شذرہ:میانوالی تحریک انصاف نے میرٹ پر چنے گئے، ایم این اے امجد خان کے خلاف بنی گالہ میں خان صاحب کے گھر آگے کل رات سے دھرنا دے رکھا ہے۔ بھولے احتجاجی، بھول رہے ہیں کہ امجد خان، عمران کی سیاست کا حاصل کلام، دعائوں کا نتیجہ اور سیاسی میرٹ کی واحد کمائی ہے۔
.