میں عمران خان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ جاوید ہاشمی کا ذہنی توازن درست نہیں۔ اگرچہ ہاشمی صاحب پوری پلاننگ کے ساتھ ایسے الزامات لگا رہے ہیں جو حقیقت کے قریب تر ہیں۔ بس معمولی سا ٹچ دے کر انہوں نے انہیں بھیانک بنا لیا ہے۔ جوڈیشل مارشل لا کی بات کو لیجئے۔ کیا جوڈیشل کمیشن اگر فیصلہ دے دیتا کہ پورے ملک میں دھاندلی ہوئی ہے تو حکومت اور اسمبلیاں ختم نہ ہو جاتیں۔ تحریک انصاف سپریم کورٹ سے اسی فیصلے کی امید رکھتی تھی اور سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے بارے میں عمران خان کی بھی بڑی اچھی رائے تھی۔ انہیں یقین تھا کہ وہ درست فیصلہ کریں گے۔ اب اگر اس بات کو ہاشمی صاحب جوڈیشل مارشل لا کہہ کر غیر قانونی عمل ثابت کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً اس کا کوئی پس منظر ہوگا۔
جاوید ہاشمی کا یہ الزام کہ کچھ کور کمانڈرز عمران خان کی پشت پر تھے۔ حقیقت سے زیادہ دور نہیں لگتا لیکن حقیقت نہیں ہے۔ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد فوج کے حوالے کردیا تھا۔ فوج سے براہ راست لڑائی جھگڑے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔ پھر یہ بھی ہے کہ حکومت کے غیر قانونی اقدام روکنے کے لئے عوام ہمیشہ فوج کی طرف دیکھتی چلی آرہی ہے۔ سو یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ اس وقت فوج سے یہ امید نہ کی جارہی ہو کہ وہ مداخلت کرے اور نواز شریف کو مستعفی ہونے پرمجبور کرے۔ دوسری طرف نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو اس معاملے میں مداخلت کی ریکوئسٹ کردی تھی جس کے نتیجے میں جنرل راحیل شریف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ملے تھے۔ کچھ ضمانتیں بھی دی تھیں۔ ماڈل ٹائون کے چودہ شہیدوں کے قتل کی ایف آئی آر نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف درج بھی کرائی گئی تھی۔ ایسی صورت حال میں اگر جاوید ہاشمی یہ کہیں کہ اس وقت عمران خان مارشل لا لگوانا چاہتے تھے تو یہ بات قرین از قیاس نہیں۔ عمران خان کو مارشل لا کا کیا فائدہ ہوسکتا تھا۔ ہاں اگر عدالت عظمی دھاندلی کے الزام پرتحریک انصاف کے حق میں فیصلہ کرتی۔ حکومت اور اسمبلیاں ختم ہوتیں تو یقیناً کوئی نگران حکومت وجود میں آتی جو انتخابات کراتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کی میٹنگز میں ان تمام موضوعات پر گفتگو نہ ہو تی ہو۔ یقیناً ہوتی ہوگی مگر اب یہ دو سال کے بعد جاوید ہاشمی جو ذرا سا ٹوئسٹ دے کر ان باتوں کو پیش کررہے ہیں اس کا مقصد کچھ اور ہے۔
پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار سے کسی دور میں بھی مکمل طور پر انکار ممکن نہیں۔ میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاالحق یا جنرل پرویز مشرف کے دور کی بات نہیں کرنے لگا۔ میں آصف علی زرداری کی جمہوری حکومت کی ایک یادگار سے گرد جھاڑنے لگا ہوں جب نواز شریف، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے اپنے جلوس کے ساتھ لاہور سے نکلے تو آرمی چیف کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ جلوس جب گوجرانوالہ پہنچا تو آرمی چیف کے ٹیلی فون نے کامیابی کا مژدہ سنا دیا۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ پاکستانی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس پر عمل در آمد کی ہمت کسی کے پاس نہیں۔
مسئلہ الزامات کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جاوید ہاشمی کے پیچھے کون ہے۔ دوسال کے بعد اچانک اس طرح کی عجیب و غریب باتیں کرنے کی ضرورت انہیں کیوں محسوس ہوئی۔ یہ باتیں تو انہوں نے الیکشن ہار کر بھی نہیں کی تھیں۔ آدمی کوسب سے زیادہ تکلیف ہارنے پر ہوتی ہے۔ مگر اس تکلیف میں بھی جاوید ہاشمی ایسی کوئی بات سامنے نہیں لا سکے تھے۔ اب اچانک یادداشت کیسے واپس آگئی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ وہ لوگ جو عوام کی توجہ پانامہ لیکس کی طرف سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ وہ پیچھے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ عمران خان کی نہیں فوج اور عدلیہ کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ آج کل ایم کیو ایم لندن کے بھی مسلسل جاوید ہاشمی کے حق میں بیانات آرہے ہیں۔ جاوید ہاشمی تحریک انصاف چھوڑنے سے پہلے سعد رفیق کے ساتھ رابطے میں تھے اس بات کی وہ خود بھی تصدیق کرچکے ہیں۔ ممکن ہے یہ الزامات بھی اسی رابطے کا کوئی شاخسانہ ہوں۔
جاوید ہاشمی نے پرویز مشرف کے دور میں خاصے دن جیل میں گزارے تھے مگر نون لیگ نے اس قربانی کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ شاید نون لیگ کو اُنہی دنوں میں ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دن مظہر برلاس اور میں انہیں ملنے پارلیمانی لاجز میں گئے تو اس وقت ان کے پاس راجہ جاوید (برمنگھم ) بیٹھے ہوئے تھے۔ اور ہاشمی صاحب مسلسل بولتے چلے جارہے تھے۔ ان کی عجیب و غریب فلاسفی جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا میں نے بھی خاصی دیر سنی اور پھر راجہ جاوید کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیا۔ راجہ جاوید کواب تو کشمیر حکومت میں کوئی عہدہ مل گیا ہے مگر اسوقت انہیں یہی شکایت تھی کہ نواز شریف نے انہیں کچھ نہیں دیا حالانکہ ان کی بڑی خدمات ہیں۔ شاید ان دنوں جاوید ہاشمی اور راجہ جاوید کی دوستی کی وجہ بھی یہی تھی۔ پھرجاوید ہاشمی نون لیگ چھوڑ گئے مگر نون لیگ ان کے اندر سے نہ نکل سکی۔ انتخابات کے بعد اسمبلی شروع ہوئی تو جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کی طرف سے تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو اپنا لیڈر قرار دے دیا جس کی وجہ سے عمران خان کو اسمبلی میں اپنا نمائندہ شاہ محمود قریشی کو بنانا پڑ گیا تھا۔ مجھے دکھ ہے کہ جاوید ہاشمی کسی دوستی یا دشمنی میں بہت آگے چلے گئے ہیں۔ ان سے بصد احترام عرض ہے کہ ہمیں تو یہی سکھایا گیا تھا کہ کسی شخص کی دشمنی یا دوستی تمہیں اس بات پر مجبورنہ کر دے کہ تم عدل کا دامن ہاتھ سےچھوڑ دو۔
.