حب (نامہ نگار)تربت کے حلقہ پی بی 50 میں متنازع انتخابی نتائج پرفریقین نے آستینیں چڑھا لیں، نیشنل پارٹی کی قیادت کی پریس کانفرنس اور احتجاجی مظاہروں کے بعد پیر کی صبح لالہ رشید اور شام کو اکبر آسکانی بھی میدان میں اتر آئے جبکہ بی این پی عوامی کی قیادت نے مذکورہ الیکشن کو بزرگ سیاسی رہنما میر محمد علی رند کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازشش کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے آج دمام دم مست قلندر کا اعلان کر دیا ہے۔اتوارکو احتجاجی مظاہروں میں لالہ رشید کے سینکڑوں کارکنوں نے تربت چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور مذکورہ انتخابی عمل کو ڈھونگ اور نیشنل پارٹی کی سازش قرر دیتے ہوئے این پی کے خلاف نعرے بلند کیے اور مذکورہ الیکشن کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا۔جلوس سے خطاب کرتے ہوئے لالہ رشید نے اپنے موقف کو دھراتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی راگ الاپنے والی نیشنل پارٹی کی قیادت نے جمہوریت کی پیٹ پر کس ظالمانہ طریقے سے وار کیا ہے اس کا مشاہدہ ہر عام و خاص نے حلقہ پی بی پچاس کے انتخابی عمل میں میر اکرم دشتی اور سرکاری مشینری کی ملی بھگت سے ٹپے کی ووٹنگ کرتے ہوئے کیا ہے انہوں نے کہا کہ پورے علاقے میں میر اکرم کو ایمانداری کا ایک بھی ووٹ نہیں ملا تھا اور عوام نے انہیں یکسر مسترد کیا تھا مگر ان کے حمایتی افسران اور ضلعی انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ کونسل کیچ کے چئیرمین نے علاقے میں دھاندلی کا ایسا نظام رائج کر رکھا تھا اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایسے غیر روایتی اور غیر جمہوری انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کرتے ہیں ، بعد ازاں آزاد امیدوار لالہ رشید کے جلوس میں بی این پی مینگل کی قیادت بھی شامل ہو گئی جس میں پارٹی کے رہنما حمید ایڈوکیٹ اور ڈاکٹر عبدالغفور نے اپنے خطاب میں انتخابی عمل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دوبارہ انتخاب کرانے کے لیے لالہ رشید کے موقف کی حمایت کی ،، دوسری طرف پی ایم ایل( ن) کے رہنما حلقے کے امیدوار حاجی اکبر آسکانی کے ترجمان اور بی ایس او کے سابق چئیرمین نادر قدوس بھی سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ پریس کلب تربت کے سامنے سراپا احتجاج ہوئے اور کہا کہ نیشنل پارٹی کی قیادت کی حاجی اکبر آسکانی پر الزامات سراسر جھوت پر مبنی ہیں کیونکہ حاجی اکبر آسکانی نے علاقے میں انتہائی جان جھوکم سے کام لے کر انتخابی عمل کا حصہ بن کر کام کیا اور ان کے کارکنوں نے بھی بھر پور انداز سے الیکشن میں حصہ لیا تھا مگر اس کے باوجود نیشنل پارٹی کی قیادت کی بے جا الزام تراشیوں اور مداخلت نے موصوف کے نتائج روک دیے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارا چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ ہے کہ وہ جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے فیصلہ حاجی اکبر آسکانی کے حق میں دے ، دریں اثنا بزرگ رہنما میر محمد علی رند نے بھی کل اپنے اس موقف کو دوبارہ دھراتے ہوئے مزکورہ انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حلقے میں دوبارہ الیکشن کا اعلان کیا جائے ، اس موقع پر موصوف کے فرزند اور ترجمان میر عبدالرؤف رند نے کہا کہ بی این پی عوامی اس الیکشن کو نہیں مانتی جس میں ایک بزرگ سیاسی رہنما کی جگ ہنسائی ہو انہوں نے کہا کہ اس بات سے پورے بلوچستان میں بچہ بچہ جانتا ہے کہ میر محمد علی رند جیسی بزرگ سیاسی شخصیت کو علاقے میں اتنی کم تعداد میں ووٹ ملنا دھاندلی کا منہ بولتا ثبوت ہے انہوں نے کہا کہ مزکورہ نامنہاد الیکشن کے انعقاد کا ایک خاص مقصد میر محمد علی رند کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا کیونکہ میر محمد علی رند نے نا پہلے دھاندلی کی سیاست پر یقین کیا تھا اور نا ہی موجودہ الیکشن میں دھاندلی کی سوچی تھی انہوں نے ٹپے کی ووٹنگ نہیں کی مگر ان کے نام چند ووٹ ظاہر کر کے علاقے میں ان کی سیاسی شخصیت کو داغدار کرنے کی سازش میں نیشنل پارٹی اور سرکاری ،مشینری دونوں نے کردار ادا کیا تھا انہوں نے کہا کہ بی این پی عوامی چیلنج کرتی ہے کہ دوبارہ الیکشن کا اعلان کیا جائے اور ا نتخابی عمل کے لیے انتخابی میدان کو سازگار بنایا جائے پھر دیکھنا کہ جیت کس کی ہوتی ہے اور میر محمد علی کے لیے ووٹ کے لیے کتنے لوگ میدان میں اتر آئیں گے ، انہوں نے کہا کہ اس قسم کی کھلی دھاندلیوں سے پھر پور الیکشن کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ پھر سے دھراتے ہیں کہ ریاست کے رکھوالے اگر انتخابی عمل کے لیے عوام کو سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکتے تو وہ نامنہاد الیکشن کے نام پر سیاسی شخصیات کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے سے گریز کی پالیسی اختیار کریں انہوں نے کہا کہ حلقے میں دوبارہ الیکشن کا اعلان ضروری ہے کیونکہ یہی جمہوریت کا تقاضا ہے اور یہی عوام کا مطالبہ ہے انہوں نے کہا کہ ہماری سرکار اور چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ ہے کہ وہ دبارہ حلقے میں انتخابی عمل کے شروع ہونے سے پہلے علاقے کو انتخابی عمل کے لیے مکمل سازگار بنانے کے لیے اچھی اور پائیدار حکمت عملی وضع کرئے بصورت دیگر ان الیکشن کو نہیں مانتے ہیں جو فائدہ دینے کی بجائے معتبر سیاست دانوں کی سیاسی امیج کو نقصان پہنچانے کے موجب بنیں۔