• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کو عالمی سطح پر ایک بار پھر سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات اور پابندی لگانے کی قرارداد کو مسترد کردیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان نے سال 2016 میں 379 مرتبہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی۔ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں 46پاکستانی شہری شہید ہوئے جبکہ پاکستانی فوج کی بھرپور جوابی کارروائی سے 40 بھارتی فوجی بھی واصل جہنم ہوئے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے واضح انداز میں دو ٹوک بات کہی ہے کہ پاکستان بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سلامتی کونسل نے پاکستان کے خلاف قرارداد مسترد کر کے درحقیقت ہندوستانی عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں۔ مزید برآں اقوام متحدہ میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش کریں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ بھارت خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھی اُسے کھٹکتی ہے۔ اب وہ چین اور نیپال کے تعلقات پر بھی اعتراضات اٹھانے لگا ہے۔ پاکستان کے بعد چین کا اگلے ماہ نیپال کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرنے کا پروگرام ہے۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ نے رواں سال مارچ کے آخری ہفتے اور اپریل کے اوائل میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق نئی امریکی انتظامیہ کے آنے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے باوجود ان کی کشمیر پالیسی میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری ملک ہیں اسی لئے امریکہ چاہتا ہے کہ کشیدگی کو کم کر کے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف بے سروپا الزامات اور پابندی لگانے کی قرارداد کے مسترد ہونے میں چین کا بڑا کردار ہے۔ دراصل امریکہ اور بھارت کو چین سے سخت تکلیف ہے کیونکہ جب بھی کسی عالمی فورم پر امریکہ بھارت کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے تو چین اُس کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لئے بھی ہندوستان کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔ اس معاملے میں اُسے امریکہ کی بھی سرپرستی حاصل ہے لیکن وہ چین کی مخالفت کی وجہ سے ابھی تک کامیاب نہیں ہو پایا ۔عوامی جمہوریہ چین نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستانی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا۔ اب امریکہ بھی اپنے تمام منفی حربوں میں ناکامی کے بعد دوبارہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا چاہتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کروانے میں مخلص نہیں ہے۔ وہ محض فیس سیونگ کے لئے کبھی کبھار مذاکرات کا جال پچھاتا ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس وقت سی پیک ایک اٹل حقیقت بن چکی ہے اور پورے ملک میں اس کے تحت بڑے منصوبوں پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ روس اور ایران کے سی پیک منصوبے میں شمولیت پر آمادگی کے بعد ہندوستان کی بھی آنکھیں کھل چکی ہیں۔ اب اسے صاف نظر آرہا ہے کہ یہ ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور جنوبی ایشیا میں اس اقتصادی راہداری کے بننے سے حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اگرچہ پاکستان بھارت سمیت اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا خواہشمند ہے مگر اس سلسلے میں ہندوستان کو اپنے طرز عمل میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی۔ یہ ازحد ضروری ہے کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں سے باز آجائے اور جموں وکشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق حق خود ارادیت دے جس کا اُس نے خود سلامتی کونسل میں وعدہ کیا تھا۔ وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی اُس وقت تک نہیں بن سکے گا جب تک وہ کشمیر کے معاملے کوحل نہیں کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ فوج موجود ہے۔ 4ماہ کے دوران مقبوضہ کشمیر کے مختلف اضلاع میں سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ہے اور ہزاروں کو شدید زخمی کردیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشتگردی پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں حالانکہ عالمی میڈیا وہاں اس سنگین صورتحال کی تصدیق کرچکا ہے۔ حکومت پاکستان بھی اس معاملے کو مناسب انداز میں عالمی فورموں پر نہیں اٹھا سکی۔ دردناک بات یہ ہے کہ پیلٹ گنوں سے بینائی کھودینے والے افراد ابھی تک علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اسی تناظر میں گزشتہ دنوں عالمی سطح پر خدمات سرانجام دینے والی برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیم المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران یہ پیشکش کی ہے کہ اگر بھارتی حکومت ویزے دے تو ٹرسٹ کے ماہرین مقبوضہ کشمیر جاکر بینائی سے محروم ہونے والے کشمیریوں کی آنکھوں کامفت آپریشن کرسکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت ماہرین امراض چشم کو ویزہ دینے سے انکاری ہے۔ مذکورہ ٹرسٹ نے کشمیریوں پرہونے والے حالیہ بھارتی مظالم پر میڈیا کو بریفنگ بھی دی۔ مجھے بھی اس اہم تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اہل قلم کے ساتھ اس تقریب کا اہتمام ہمارے کرم فرمائوں عبدالرزاق ساجد، نوازکھرل اور ضیاالحق نقشبندی نے کیا تھا۔ اس پروگرام میں برطانوی دارالامراء لارڈ نذیر احمد اور سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ لارڈ نذیر احمد اور حاجی حنیف کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ نے اس حوالے سے برطانوی وزیر اعظم، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کوبھی باقاعدہ خطوط ارسال کردیئے ہیں۔ ان خطوط میں انسانیت کے نام پر اپیل کی گئی ہے کہ جموں وکشمیر میں بینائی کھو دینے والے افراد کو طبی امداد کے لئے ان کی ٹیم کو وہاں جانے کی اجازت دی جائے۔ مذکورہ فلاحی تنظیم پچھلے کئی سالوں سے پاکستان، برما، بنگلہ دیش اور افریقہ کے ممالک میں فری آئی کیمپوں کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکومت اپنی روایتی ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر ٹرسٹ کے ماہرین امراض چشم کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دیتی ہے یا پھر کشمیری عوام یونہی پستے رہیں گے؟ حکومت پاکستان کو عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔

.
تازہ ترین