• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر ِاعظم نواز شریف نے نئے سال کے پیغام میں انڈیااور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور امن سے حاصل ہونے والے فوائد کو تمام قوم تک پہنچانے کی بات کی ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں داخلی استحکام کے بغیر خارجہ پالیسی یا قومی سطح کے معاشی منصوبے، جیسا کہ پاک چین معاشی راہداری، کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ان حالات میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کچھ مخصوص عناصر کے ساتھ سازش کرنے اور الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو دبائو میں لانے کی کوشش کرتے رہے ہیںتاکہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت اور نحیف وناتواں جمہوری نظام کو پٹری سے اتارا جاسکے ۔ ملکی اور علاقائی حالات کے تناظر میں یہ کوششیں انتہائی خطرناک، چنانچہ قابل ِ مذمت ہیں۔
جاوید ہاشمی کے تازہ ترین انکشافات عمران خان، طاہرالقادری، جنرل (ر) پرویز مشرف اور سروسز کے کچھ مشکوک عناصر کے درمیان ہونے والی ایک سازش کوبے نقاب کرتے ہیں۔ ہاشمی صاحب کے مطابق ان سازشی عناصر کامنصوبہ یہ تھا کہ 2014 ء میں گلیوں میں ہونے والے احتجاج اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کی چھٹی کرادی جائے ۔وہ سازش ناکام ہوگئی کیونکہ عمران خان اسلام آباد پر قبضہ کرنے اور پارلیمنٹ پر چڑھائی کرنے کے لئے کافی ہجوم نہ لاسکے ۔ گزشتہ سال نومبر میں بھی اُنھوںنے اسی کوشش کا اعادہ کیا لیکن ایک مرتبہ پھر وہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو مشتعل کرتے ہوئے اسلام آباد کو خون میں نہلانے میں ناکام رہے ۔ دراصل فوجی مداخلت کے لئے خاں صاحب کو لاشیں درکار تھیں لیکن باشعور عوام اور حکومت نے اُن کی دال نہ گلنے دی۔
دلچسپ حقیقت ہے کہ دونوں مواقع پر مبینہ فوجی مداخلت کا ہدف ملک میں مارشل لالگانا نہیں بلکہ نواز شریف کو منصب سے ہٹانا اور ملک میں تازہ انتخابات کرانا تھا۔ اور اگر یہ کوشش ناکام ہوجاتی تو پھربنگلہ دیش کی طرز پر سپریم کورٹ کے ذریعے جوڈیشل شب خون مار کر حکومت گرائی جاتی ۔ یہ کھیل ابھی تک جاری ہے ، لیکن اس میںایک ’’تبدیلی ‘‘ آچکی ہے ۔ گزشتہ ماہ فوج کی ہائی کمان میں آنے والی تبدیلی اور کچھ دیگر تقرریوںاور تبادلوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سازشی عناصر مایوس ہوگئے ہیں۔ اس کی بجائے اب عمران خان و ہمنوا نواز شریف کی چھٹی کرانے کے لئے سپریم کورٹ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اب ان کے ہاتھ میں پاناما لیکس کا ہتھیار ہے ۔ وہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان، جناب جسٹس ثاقب نثار اور پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ، جسٹس آصف کھوسہ پر دبائو ڈالنے کی کوشش میں ہیں تاکہ وہ الف لیلیٰ میں سے ان کی مرضی کے حقائق چھان کر الگ کریں۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس انور جمالی کو پی ٹی آئی نے دھمکی دی تھی کہ اگر اُنھوںنے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تو پی ٹی آئی اس کا بائیکاٹ کرے گی۔ چنانچہ جمالی صاحب نے عمران خان کے غصے کا نشانہ بننے کی بجائے کمیشن کے قیام کا مرحلہ نئے چیف صاحب پر چھوڑ نا بہتر سمجھا۔ چنانچہ اب یہ بھاری پتھر جسٹس ثاقب نثار کو اٹھانا پڑا۔ عمران خان نے حسب معمول الزام تراشی کے ذریعے نئے چیف صاحب کو دبائو میں لینے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ ’’نواز شریف کے آدمی‘‘ ہیں۔ اس پر خیال کیا جاتا ہے کہ جج صاحب نے برا مانا ہوگا اور انہوں نے خلاف معمول اپنی خاموشی توڑ کر یہ کہا کہ وہ کسی کے آدمی نہیں ۔ تاہم کئی ناقدین اس پر حیران بھی ہوئے کیونکہ جج حضرات سے اس طرح کے بیانات کی توقع نہیں کی جاتی۔ وہ عوامی سطح پر بیانات دینے یا پریس ریلیز کی بجائے اپنا اظہار فیصلوںکے ذریعے کرتے ہیں۔ ان کے اس بیان سے کئی لوگوں کو (غلط طور پر)یہ تاثر ملا کہ وہ شاید عمران خان کے دبائو میں آگئے ہیں ، ورنہ اُنہیں اپنی غیر جانبداری کا اعلان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا تھا کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان ایک نیا بنچ تشکیل دیں ، نیز خود اس کی سربراہی نہ کریں۔
پرانے بنچ کے جج حضرات ایک ماہ تک مدعیان اور مدعا علیہان سے ہر قسم کے سوالات پوچھتے رہے ، لیکن وہ اہم ایشو کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہوگئے کہ کیا کمیشن آف انکوائری کو اپنے ٹرمز آف ریفرنس طے کرلینے چاہئیں؟کیا وہ اسی اصول کی پیروی کریں کہ مدعاالیہ بے گناہ ہے جب تک مدعی اُسے مجرم ثابت نہ کردے ؟کیا وہ سمری ٹرائل کریں یا مروجہ طریق ِ کار اپنائیں؟ مختصر یہ کہ کیا وہ آئین ، قانون اور طے شدہ طریق کار کو اپنائیں یا پھر عمران خان کی قیادت میں اپوزیشن کے مطالبات کو مانتے ہوئے نوازشریف کی بیرونی ممالک میں مبینہ طور پر چھپائی گئی دولت کی تحقیقات کے لئے inquisitorial investigation کریں؟ اس دوران ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کا سیاسی عدم استحکام سویلین حکومتوں کی برطرفی اور انتخابی دھاندلی کی وجہ سے ہے ۔ طویل عرصے سے جاری اس ’’کھیل ‘‘ میں بعض فوجی جنرل اہم کھلاڑی بن کر سامنے آتے رہے ہیں۔ چنانچہ تین مرتبہ مارشل لا لگا،ملک پر کم وبیش تیس برس تک فوجی آمریت مسلط رہی۔ اُن مواقع پر اُس وقت کی عدلیہ نے بھی فوجی حکومت کی توثیق کرنے میں ہی عافیت گردانی ۔
براہ ِراست مداخلت کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ نے انتخابی دھاندلی، پراکسی سیاست دانوں اور ’’صدارتی اتحادیوں ‘‘ کے ذریعے بالواسطہ طور پر حکومت کو کنٹرول کیا۔ تاہم 2006 ء میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان طے پانے والے چارٹر آف ڈیموکریسی نے اس کھیل کا خاتمہ کردیا۔ افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی عوامی تحریک اور پھر پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے تعاون سے ہونے والی آئینی ترامیم نے صدر کے ہاتھ سے زیادہ تر اختیار واپس لے کر پارلیمنٹ اور انتخابی عمل کو تقویت دی۔ ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ امید بندھی تھی کہ اب ملک میں سویلین حکومت مضبوط ہوگی اور آمریت یا فوجی مداخلت کا خطرہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ تاہم اس نے سیاسی اپوزیشن کی پوری توجہ ’’آزاد عدلیہ ‘‘پر مرکوز کردی ہے کیونکہ یہی پلیٹ فارم اس کا آخری سہارا رہ گیا ہے ۔
یقینا یہ صورت ِحال نظام کے استحکام کے لئے اچھی نہیں ۔ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں بات چیت کے ذریعے طے کیا جانا چاہئے ۔ اس کے بعد عام انتخابات میں عوام کو اپنی مرضی کا اظہا رکرنے کا موقع ملنا چاہئے ، اور پھر اگلے پانچ سال تک عوام کی مرضی کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ دھماکہ خیز سیاسی مسائل کو سلجھانے کے لئے سپریم کورٹ کاپلیٹ فارم استعمال کرنے سے گریز کیا جائے تو بہتر ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ کرنے والے جج حضرات عوامی دبائو کا شکار نہیں ہوں گے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر وہ تاریخ کے منصف کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔



.
تازہ ترین